پاکستان کے آزاد میڈیا نے حب الوطنی کا ثبوت نہ دیا ہے اور انھوں نے ان کا [شدت پسندوں کا] بلیک آؤٹ کیا ہے مدارس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ...
مدارس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ایوان مناسب سمجھے تو وہ بند کمرے میں ہونے والے اجلاس میں اس کی تفصیل بتا سکتے ہیں۔ ’میں بند کمرہ اجلاس کا حامی نہیں ہوں لیکن اس میں کئی سکیورٹی مسائل ہیں جو بیرونی ممالک سے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ہم بعض اداروں پر بےجا تنقید کرتے ہیں جو جائز نہیں ہے۔ مدارس کے نمائندوں نے ان تمام ان مطالبات پر اتفاق کیا ہے جن کا حکومت ان سے تقاضا کر رہی تھی۔‘
ایوان میں اپنے پالیسی بیان میں وزیر داخلہ نے بتایا کہ اب تک پھانسی پر سے پابندی اٹھانے کے بعد سے 22 افراد کو سزائیں دی جا چکی ہیں جبکہ 17 پر عمل درآمد جاری ہے۔
جعلی موبائل سموں کی دوبارہ تصدیق کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے غیرقانونی کال ٹریفک پر بھی قابو پایا جا رہا ہے۔
اسلحے کی نمائش پر مکمل پابندی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے عوام سے کہا کہ وہ حکومت کو مطلع کریں اور اس پر فوری کارروائی کی جائے گی۔
انھوں نے مذہبی یا فرقہ ورانہ تقاریر کی بنیاد پر مقدمات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں 3265 مقدمات کا اندراج ہوا ہے جن میں سے 2065 ملزم گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔
نفرت پر اکسانے والی تقاریر کے بارے ان کا کہنا تھا کہ 500 سے زائد مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں شدت پسندی کی حمایت کے شک میں کی گئی 16 ہزار سے زائد کارروائیوں میں 12 ہزار مشتبہ افراد گرفتار ہوئے ہیں۔ ’ان میں سے اکثر پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیے جاتے ہیں لیکن 140 کا تعلق ثابت ہوا ہے، لہٰذا ان سے اس بنیاد پر دیکھا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ قومی سکیورٹی پالیسی کے نتیجے میں کارروائیاں ہوئی ہیں اور اس کی روزانہ پریس کانفرنس میں تفصیل نہیں دی جا سکتی۔ انھوں نے کہا کہ خفیہ ایجنسیوں میں تعاون بڑھا ہے اور ان کا آپس میں مقابلہ نہیں ہو رہا
کوئی تبصرے نہیں