عقیل یوسفزئی ۔۔۔۔۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی بدقسمتی رہی ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے اسلامی نرگسیت کے فروغ میں تو کوئی کسر نہیں چ...
عقیل یوسفزئی۔۔۔۔۔
یہ مسلمانوں کی اجتماعی بدقسمتی رہی ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے اسلامی نرگسیت کے فروغ میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تاہم انہوں نے جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے حصول پر کوئی توجہ نہیں دی اور اس کا نتیجہ آج مسلمانوں کے اجتماعی، فکری، معاشرتی زوال کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ 60 کے قریب اسلامی ممالک میں موجود یونیورسٹیوں کی کل تعداد صرف ایک غیر مسلم ملک بھارت کی یونیورسٹیوں سے بھی کم ہے۔ دنیا کے 500 بہترین تعلیمی درسگاہوں میں درجنوں اسلامی ممالک کا کوئی ایک بھی تعلیمی ادارہ شامل نہیں ہے۔ پاکستان کی حالت بھی دوسرے اسلامی ممالک سے مختلف نہیں ہے۔ اگر ایک طرف یہاں پر تعلیم انتہائی مہنگی ہے تو دوسری طرف تعلیمی اداروں کی تعداد ترقی یافتہ تو ایک طرف ترقی پذیر ممالک کی تعداد سے بھی بہت کم ہے۔ پاکستان کا جنگ زدہ علاقہ فاٹا دنیا کا وہ واحد بدقسمت خطہ ہے جہاں پر اکیسویں صدی کے دوران بھی ایک بھی یونیورسٹی موجود نہیں حالانکہ اس کی آبادی 50 لاکھ سے زائد ہے اور انٹرنیشنل سٹینڈرڈ آف ایجوکیشن کے مطابق فاٹا کی آبادی کے تناسب سے یہاں کم سے کم پانچ یونیورسٹیاں
ہونی چاہیے تھیں۔ - ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 2012-13ء کے دوران کل 135 یونیورسٹیاں تھیں جن میں 75 سرکاری اور 60 نجی تھیں۔ سال 2008ء تک خیبر پختونخوا میں صرف تین یونیورسٹیاں تھیں حالانکہ ان پر صوبے کے علاوہ فاٹا کا بوجھ بھی تھا اور یہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کم تھیں۔ تاہم 2008ء کے دوران جب صوبے میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آ گئی تو اس حکومت نے بعض دیگر شعبوں کے علاوہ تعلیمی اداروں کے قیام پر غیر معمولی توجہ دے دی جس کے نتیجے میں صوبے کے اندر پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران اتنے کالجز، سکول اور یونیورسٹیاں قائم -
ہوئیں جتنی کہ گزشتہ ساٹھ، پینسٹھ سال کے طویل عرصے میں نہیں بنی تھیں۔ ایچ ای سی کے مطابق اس وقت صوبہ پختونخوا میں 20 یونیورسٹیاں ہیں جن میں ایک درجن سے زائد سرکاری ہیں جبکہ نصف درجن زیر تکمیل یا زیر غور ہیں۔ ان میں جس یونیورسٹی نے قلیل ترین عرصے میں اپنے قیام اور کارکردگی کی مثال قائم کی اس کا نام عبدالولی خان یونیورسٹی مردان ہے جس نے ملکی رینکنگ میں بہت کم مدت میں اپنی ایک جگہ بنائی جبکہ اب اس کی متعدد شاخیں بھی مکمل یونیورسٹیز میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ سال 2008ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی۔ صرف ایک سال کی مدت میں اس کی کلاسز شروع ہو گئیں جبکہ اب اس نے ایک شاندار تعلیمی ادارے کی شکل اختیار کی ہے۔ 2009ء میں اس یونیورسٹی نے اپنے وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی کی قیادت اور وزیر اعلیٰ حیدر ہوتی کی سرپرستی میں کلاسز کا آغاز کیا تو طلبا و طالبات کی تعداد 735 تھی تاہم اس وقت یہ تعداد 7030 ہے اور سال کے آخر تک اس کے دیگر شعبوں کی فعالیت کے باعث یہ تعداد 2,000 تک پہنچ جائے گی۔ یونیورسٹی میں بعض شعبے ایسے ہیں جو کہ ان یونیورسٹیوں میں بھی نہیں جو کہ کئی دہائیاں گزرے قائم ہوئی ہیں جبکہ اس کے کیمپس صوبے بھر میں موجود ہیں جن کو مسلسل توسیع دی جا رہی ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں دیگر شعبہ جات کے علاوہ صحافت اور ابلاغ عامہ کا شعبہ بھی ہے جس کی سربراہی ممتاز صحافی، تجزیہ کار اور ماہر تعلیم شیراز پراچہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے وائس چانسلر اور اپنی متحرک ٹیم کے ہمراہ حال ہی میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں میڈیا کے کردار کے حوالے سے دو روزہ قومی مباحثے کا اہتمام کیا جس میں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ میڈیا کی اہمیت، ترجیحات، کردار، کمزوریوں اور اثرات جیسے اہم ترین موضوعات پر علمی اور صحافتی بحث کی گئی۔ جن اہم صحافیوں، اینکرز، کالم نگاروں، دانشوروں اور ایڈیٹرز نے اس نمائندہ اور منفرد مباحثے میں شرکت کر کے اظہار خیال کیا۔ ان میں طلعت حسین، سلیم صافی، مجاہد بریلوی، آیاز خان، نذیر لغاری، مطیع اللہ جان، اویس توحید، وسیم بادامی، صائمہ بتول، عامر خاکوانی، حیدر جاوید سیّد، ارشاد عارف، رؤف طاہر، رحیم اللہ یوسفزئی، خورشید ندیم، صبا شیراز، جاوید اقبال، فرخ سہیل، طاہر حسن خان، علی ارقم، افتخار مجاز، فخر کاکا خیل، جبار خٹک اور رحمت شاہ آفریدی کے علاوہ متعدد دیگر بھی شامل تھے۔ پہلی بار قومی میڈیا کے بڑوں نے حیدر ہوتی اور ان کی حکومت کی کھل کر تعریف بھی کی۔ اس میگا ایونٹ میں صوبے بھر کے علاوہ فاٹا اور تینوں صوبوں کے نمائندہ صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے شرکت کر کے نہ صرف عبدالولی خان یونیورسٹی اور اس کے منتظمین کی بھرپور حوصلہ افزائی کی بلکہ انہوں نے جرنلزم کے علاوہ ملک کو درپیش سنگین حالات بالخصوص دہشت گردی اور انتہا پسندی سمیت میڈیا کے کردار اور اثرات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور حاضرین کے سامنے مختلف موضوعات پر اپنی رائے اور تجاویز کا کھل کر اظہار بھی کیا۔ حاضرین اور سٹوڈنٹس نے نامور صحافیوں، اینکرز اور کالم نگاروں سے بے شمار سوالات کیے اور ان کو اپنی ان آراء، تجاویز، اعتراضات اور خدشات سے بھی آگاہ کیا جو کہ ان کے ذہن میں صحافت اور حالات کے بارے میں موجود تھے۔ سوالات کا زیادہ فوکس اس بات پر رہا کہ پاکستان بالخصوص پختونخوا اور فاٹا میں جاری انتہا پسندی کے اصل اسباب اور عوامل کیا ہیں اور اس ضمن میں میڈیا کا کردار کیسا اور کیا ہونا چاہیے۔ یوں یہ ایونٹ صفحات اور سکرین پر حکمرانی کرنے والے صحافیوں کے لیے بھی سیکھنے اور جانچنے کا ایک بہترین موقع ثابت ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حاضرین کے علاوہ اتنی بڑی تعداد پر مشتمل مہمانوں کی تعداد، شرکت یا دلچسپی میں بھی ان دو دنوں کے دوران کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس ایونٹ کی اہمیت اس حوالے سے بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے اندر پہلی دفعہ کسی یونیورسٹی کی سطح پر میڈیا، نیوز اور کرنٹ افیئر کے حوالے سے اتنے بڑے اور نمائندہ پروگرام کا انعقاد کیا گیا اور اس میں معاشرے کے دیگر صاحب الرائے حلقوں کے علاوہ طلباء اور طالبات کو بھی شریک گفتگو رکھا گیا ورنہ ہمارے ملک کی اکثر یونیورسٹیاں صرف کورسز پڑھانے یا ڈگریاں بانٹنے کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ ایونٹ میں موجود ماہرین کے مطابق یونیورسٹیوں کا کام صرف پڑھانا نہیں بلکہ اس قسم کی سرگرمیوں کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے بعض ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ سری لنکا، ملائشیا، سنگا پور اور ناروے کی مثالیں دیں جہاں یونیورسٹیاں مختلف ایشوز پر نہ صرف تحقیق کرتی ہیں بلکہ معاشرے اور ریاست کی گائیڈ لائن کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہیں۔ مباحثے میں شریک سینئر صحافی اور اینکر مجاہد بریلوی نے ’’ہم شہری‘‘ کو بتایا کہ ہمیں مقامی صاحب الرائے حلقوں، طلباء اور عوام کی بات اور آراء سننے کے علاوہ مقامی صحافیوں کی تجاویز سننے اور سمجھنے کا بھی موقع ملا۔ ہمیں یہ احساس بھی ہوا کہ میڈیا کے ہمارے اکثر ادارے اس خطے کو وہ کوریج نہیں دے رہے جو کہ جاری حالات کے تناظر میں اُن کو ملنی چاہیے۔ ممتاز صحافی اویس توحید نے کہا کہ صوبے اور فاٹا کے عوام کے علاوہ یہاں کے صحافیوں کو بھی غیر معمولی حالات، خطرات اور مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمیں ان کے معاملات پر خصوصی توجہ دینی ہو گی اور ان کا بھرپور ساتھ دینا ہو گا۔ ان کے مطابق ہمیں ملکی سطح پر ایسے مزید مذاکروں کا سلسلہ کرنا چاہیے تاکہ میڈیا کو مقامی حالات سمجھنے میں مدد ملے۔ ایونٹ میں موجود متحرک سٹوڈنٹس طارق اللہ، احسان بیٹنی، مدثر بشیر یوسفزئی، ماہ نور عباسی، نیاز علی اور جواد یوسفزئی کے مطابق ان کو اپنے اساتذہ اور سینئر صحافیوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے اور یہ اُن کے لیے عملی صحافت میں آنے سے پہلے سیکھنے کا ایک عمل ثابت ہوا۔ دوسری طرف اسی ہفتے پشاور میں ایک نجی افغان ٹی وی کے زیر اہتمام ضلعی شاعر غنی خان کی یاد میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ نامور شعراء، ادباء اور محققین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مقررین نے غنی خان کے کام اور شاعری کو سراہتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کی۔ نامور سیاسی لیڈر اور انقلابی شاعر اجمل خٹک کی برسی کی مناسبت سے بھی پشاور، اکوڑہ خٹک، خیر آباد اور متعدد دیگر شہروں میں تقریبات اور مشاعروں کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی کارکنوں سمیت ماہرین ادب، شعراء، طلبا اور عوام نے بھرپور شرکت کی۔ اسی طرح مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے پشاور، مردان، بنوں، کوہاٹ، سوات اور متعدد دوسرے علاقوں میں بھی ریلیوں، اجتماعات اور سیمینارز کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر شرکاء اور ماہرین نے مقامی زبانوں کے فروغ کو وقت کا تقاضا قرار دیتے ہوئے صوبے کے نصاب تعلیم سے باچا خان اور دیگر لیڈروں سے متعلق مواد ہٹانے کے حکومتی کوششوں کی شدید مذمت کی اور صوبائی حکومت کو پشتون دشمن قرار دے ڈالا۔ صوبے کے اندر کاشغر، گوادر کاریڈور کے معاملے پر بھی احتجاج دیکھنے کو ملا۔ سیاسی اور عوامی حلقوں نے روٹ کی تبدیلی کے مبینہ اقدام کو صوبے اور فاٹا کے ساتھ زیادتی قرار دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ اگر روٹ پرانے نقشے کے مطابق نہیں اپنایا گیا تو یہ پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کے لیے خطرناک ہو گا اور نتائج کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہو گی۔ تاہم اہم معاملے پر حکمران جماعت تحریک انصاف خاموش رہی جس کے باعث دوسروں کے علاوہ اس کے اپنے کارکن بھی تنقید کرتے پائے جا رہے ہیں۔ صوبے کی سیاست اگر ایک طرف اس قسم کی سرگرمیوں اور اجتماعات کے باعث خوف اور امن و امان کی خرابی کے باوجود پھر سے متحرک ہو گئی ہے تو دوسری طرف طبقہ اشرافیہ سینیٹ کے الیکشن جیتنے یا جتوانے کے گیم میں زبردست جوڑ توڑ اور خرید و فروخت میں مصروف عمل رہا اور نام نہاد عوامی نمائندوں کی منڈی سجی اور لگی رہی۔ حکمران جماعت تحریک انصاف اپنے مبینہ ’’لوٹوں‘‘ کے باعث زبردست انتشار اور خوف کا شکار رہی جبکہ نام نہاد قبائلی ممبران حسب معمول بکنے کے لیے صف اوّل میں کھڑے نظر آئے۔ مسلم لیگ کے ایم این اے شہاب الدین خان کے بغیر باقی تمام قبائلی ممبران کروڑوں کی بارگیننگ میں مصروف رہ کر یہ بھولتے گئے کہ ان کے علاقوں کے عوام کو کن مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا ہے اور یہ کہ ان کو اپنی نمائندگی ک حق ادا کرنا چاہیے۔ جے یو آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بھی لوٹوں کا ’’سامنا‘‘ رہا۔ قبائلی ممبران کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے متعدد ارکان نے خرید و فروخت کے لیے نہ صرف یہ کہ پشاور اوراسلام آباد کو سرگرمیوں کا مرکز بنائے رکھا بلکہ دبئی اور ملائیشیا میں بھی منڈیاں لگی رہیں۔ تحریک انصاف اور صوابی قومی اتحاد کے متعدد ارکان 20 سے 15 جبکہ ممبران قومی اسمبلی 20 سے 40 کروڑ تک میں سودا کرتے رہے اور ان سودوں میں طبقہ اشرافیہ کے بعض ’’معززین‘‘ دلالوں کا کردار ادا کرتے رہے۔ بعض ’’شوقیہ اداکار‘‘ بھی ’’معزز‘‘ بننے کے لیے سینیٹر بننے کے چکر میں میدان میں کود پڑے۔ ان عناصر نے حسب روایت بعض پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی اور مختلف ’’دیگر ذرائع‘‘ استعمال کر کے ٹکٹ حاصل کیے۔ بعض پارٹیوں کے متعدد اہم عہدیداروں نے بھی اس گیم میں کروڑوں، اربوں کما کر اپنی بینک بیلنس بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور انہی سرگرمیوں کا خوف تھا کہ متعدد دیگر کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے بعض لیڈروں، اے این پی کے اسفند یار ولی خان اور تحریک انصاف کے عمران خان کو یہاں تک کہنا پڑا کہ ووٹنگ شو آف ہینڈ کے ذریعے ہونی چاہیے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ اب کے بار بھی اس خرید و فروخت میں فاٹا اور صوبہ پختونخوا کے ممبران اسمبلی سرفہرست رہیں گے جبکہ متعدد پارٹیوں کو لوٹوں کی بے وفائی کا زخم سہنا اور دُکھ جھیلنا پڑے گا۔ وقار احمد خان، محسن عزیز، لیاقت ترکئی خریدنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ دولت کا استعمال کس نوعیت کا ہے اس کا اندازہ خارجہ امور کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوارن حاجی عدیل کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پشاور کے ایک شہری کے اکاؤنٹ میں 7 ارب 80 کروڑ کی خطیر رقم منتقل ہو چکی ہے جو کہ سینیٹ کے الیکشن میں استعمال ہو گی۔
کوئی تبصرے نہیں