Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

مراد سعید کی ڈگری ضیاءاللہ ہمدرد

مراد سعید کی ڈگری ضیاءاللہ ہمدرد دو دن پہلے مجھے جیو اور ڈان ٹی کے دوستوں کے فون آئے اور مراد سعید کی ڈگری کے بارے میں دریافت کیا۔ م...


مراد سعید کی ڈگری
ضیاءاللہ ہمدرد

دو دن پہلے مجھے جیو اور ڈان ٹی کے دوستوں کے فون آئے اور مراد سعید کی ڈگری کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایک سٹوڈنٹ پالی ٹیشن اساتذہ کی سیاست کی نذر ہوگیا۔ فیس بک پر بھی بہت سارے دوستوں نے استفسارکیا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ جب سے وہ ایوان اقتدار میں پہنچا ہے، میری اس سے ملاقات نہیں ہوئی تاہم فون پر کبھی کبھار رابطہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ غالبا ۲۰۰۷ کی بات ہے جب میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس وقت میں اسلامیہ کالج میں بی اے جرنزلم اور آئی آر کا طالب علم تھا اور عمران خان کا طوطا آہستہ آہستہ سر چڑھ کر بولنے کی کوشش کررہا تھا۔ میرے ایک دوست محمد شفیق نے مجھے بتایا کہ پشاور یونیورسٹی میں انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے ایک سیاسی طلبہ تنظیم بن چکی ہے اور مراد سعید نامی ایک طالب علم اس کو لیڈ کررہا ہے۔ اگلے دن میں مراد سعید کے کمرے میں موجود تھا۔ اس کے ساتھ ایک طویل بچث چلی جس کے بعد اس نے میرے بارے میں اور میں نے اس کے بارے میں غلط رائے قائم کی۔ وہ مجھے مشروٹ قسم کا بے وقوف سمجھ بیٹھا جو ہر بات کو پیچیدہ بناتا ہے اور آدھے بھرے گلاس کو آدھاخالی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ میں اسے ایک پاگل ، جذباتی اور سیاسی نابالغ کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ لیکن اگلے چند ملاقاتوں میں ہم ایک دوسرے کے اور قریب آگئے اور پھر اس کی ذات اور عادات کا مجھ پر یہ اثرہوا کہ میں نے پھیکی چاءے پینی شروع کردی اور میرے یونیورسٹی کا زیادہ تر ٹائم اس کے ساتھ گزرنے لگا ۔ وہ دن کو میرے ڈیپارٹمنٹ اور میں اس کے ڈیپارٹمنٹ کے چکر لگاتا اور ہاسٹل کی زندگی کا تو یہ عالم تھا کہ ہم چار سالوں میں شاید کبھی ایک دوسرے سے الگ نہ ہوءے، یہاں تک کہ جب میں نے اسے اکیلا چھوڑ کر امریکہ کی راہ لی تو وہ امریکہ فون کرکے مجھے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی روداد سناتا رہا ۔ پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں سیاست پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس کے کئ روشن جبکہ کئی تاریک اور انتہائی بھیانک پہلو ہیں۔ میں اس کی تاریخ میں اسلئے نہیں پڑنا چاہتا کیوں کہ یہ میرا موضوع بحث نہیں ہے۔ لیکن مراد سعید نے جس فیڈریشن کی بنیادرکھی اور جس خلوص نیت اور ایمانداری سے اسے چلایا، ایک تناور درخت کی صورت مضبوط کیا اور جو بعد میں پورے ملک میں پھیل گیا ، اس جذباتی لڑکے کا وہ کارنامہ ہے کہ بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے کرنے والی حکومتیں بھی شاید ایسا نہ کرسکیں ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر پاکستان کے سیاستدانوں میں مراد سعیدکی پاکستان سے محبت اور اس دھرتی کے لئے کچھ کرنے کے جذبے اور اخلاص کا دس فیصد بھی آجائے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ملک سدھر سکتا ہے۔ آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ ایسا ذہین اور ہونہار طالب علم جس نے ایف ایس سی تک تمام امتحانات اے گریڈ میں پاس کئے ہوں اور اپنا کیرئیر داو پر لگا کر ملک کی سیاست میں کچھ مثبت کرنے کے لئے اس نے جتنے پاپڑ بیلے اگر آپ کو اس نوجوان کی قربانیوں کا اندازہ ہوجاءے تو شاید آپ بھی میری طرح تمام سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر اس کے گرویدہ بنیں ۔ مراد سعید نے جب انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور تعلیم کی بجاءے اس کی توجہ سیاست کی طرف مائل ہوگئی تو یہ وہ دور تھا جب تحریک انصاف کے پاس پوسٹر چھاپنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ اس کا والد سعودی عرب میں ٹیکسی ڈرائور تھا لیکن اپنے بیٹے کی سیاستدان بننے کی خواہش پورا کرنے کے لئے ہر ہفتے اسے دس بارہ ہزار روپے ضرور بھجواتا۔ یہ ان پیسوں سے یونیورسٹی میں عمران خان کے نظریے اور سیاست کی تبلیغ کرتا اور اسی پاکٹ منی سے چارٹ خرید کر مجھے تھما دیتا۔ میں ان چارٹس پر علامہ اقبال، فیض ، مصطفی زیدی ، جالب اور دیگر انقلابی شاعروں کے اشعار لکھ دیتا اور پھر سارے ہاسٹلز میں موجود آئی۔ ایس۔ ایف کے کارکن انہیں ہاسٹل کے نوٹس بورڈز پر چسپاں کر لیتے۔ یہ وہ دور تھا جب صوبے میں اے این پی حکومت بن چکی تھی اور پی ایس ایف کے عہدیدار یونیورسٹی میں بادشاہوں کی طرح پھرتے تھے۔ انہوں نے اس لڑکے کو ڈرانے دھمکانے کی بہت کوشش کی کہ یہ سیاست سے باز آجاءے لیکن یہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔ پشاور یونیورسٹی میں پی ایس ایف اور پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبہ کا مقابلہ کرنا ایسا ہے جیسے سندھ میں ایم کیو ایم کو للکارنا۔ لیکن تمام تر حربوں اور دھمکیوں کے باوجود اس نے نہ صرف اپنا مشن جاری رکھا بلکہ اس دوران بہت سارے طلبہ تحریک انصاف کی طرف راغب ہوءے اور یوں آہستہ آہستہ کاروان بنتا گیا۔ مراد سعید نہ صرف یونیورسٹی بلکہ اپنے پارٹی کی صوبائی قیادت کی نظر میں بھی کٹھکتا تھا۔ میں اس حقیقت کا چشم دید گواہ ہوں کہ غیروں نے اسے اتنی ٹینشن نہیں دی جتنا کہ اس لڑکے کو اپنوں نے تڑپایا۔ اس کے لہجے میں کڑواہٹ ، ماتھے پہ شکن اور ہر جنگجوانہ طبیعت اس کی اپنی نہیں بلکہ سیاست کی دی ہوئی ہے۔ اس کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن وہ اپنے مشن میں شاید عمران خان سے بھی زیادہ مخلص تھا۔ اس کی ٹینشن دیکھ کر مجھے کبھی بھی تحریک انصاف میں شامل ہونے کا خیال نہیں آیا لیکن اپنے طور پر مجھ سے جتنا ہوسکا اپنے دوست کوسیاسی سرگرمیوں میں سپورٹ کیا۔ اس نے بھی ہر فورم پر مجھے اتنی عزت دی کہ عزت دی کہ آج بھی مجھے پورے صوبے سے تحریک انصاف اور آ ئی ایس ایف کے عہدیداروں کے ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں۔ حالانکہ میں کبھی بھی پی ٹی آئی کا باقاعدہ اور باضابطہ ممبر نہیں رہا۔ جہاں تک یونیورسٹی انتظامیہ اور اس کی ڈگری کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بیچارہ بھی اساتذہ کی سیاست کی نذر ہوگیا۔ یہ بات کسی سے دھکی چھپی نہیں کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ جس طرح سیاست سیاست کھیلتے ہیں ، طالب علم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ مراد سعید جس وقت یونیورسٹی میں سیاست کی نئی روش اور نئے انداز متعارف کر رہا تھا، اس وقت پشاور یونیورسٹی کی سیاست کا یہ عالم تھا کہ کچھ سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار نہ صرف اپنے کمروں میں کھلے عام شراب نوشی اور چرس سے دل لبھائی کرتے تھے بلکہ یونیورسٹی کے اپنے باپ کی جاگیر سمجھ رہے تھے ۔ ہوٹلوں میں کھانا بھی فری میں کھاتے تھے۔ اگر کوئی ویٹر یا ہوٹل مالک پیسے مانگتا تو اس کی وہ درگت ہوتی کہ بیچارے کو بوریا بستر گول کرنا پڑتا اور یونیورسٹی انتظامیہ بھی طلبہ تنظیموں کے حق میں فیصلہ کرکے معاملہ رفع دفع کردیتی۔ پشاور یونیورسٹی کے مدینہ مارکیٹ سے ایک گونگا جس کی مدینہ مارکیٹ میں جوس کی دکان تھی کو پیسے مانگنے پر ایک سیاسی تنظیم نے اتنا مارا تھا کہ اس بے زبان کو خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں اپنا کاروبار منتقل کرنا پڑا اور آج بھی اشاروں سے ان بدمعاشوں کی کہانیاں سناتا ہے۔ کچھ طلبہ تنظیموں نے یونیورسٹی کے کمروں پر قبضہ جماکر اپنے دوستوں میں تقسیم کرد یے تھے اور بعض کے کمروں میں اتنا اسلحہ پڑا ہوا تھا اور اب بھی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ میں کسی کو جرات نہیں تھی کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے ۔ بعض تنظیموں کے عہدیدار نقل کو اپنا سیاسی اور بنیادی حق سمجھتے تھے اور اگر کوئی ٹیچر انہیں روکنے کی کوشش کرتا تو سب مل کر اس کی ایسی دھلائی کرتے کہ دیگر اساتذہ ان کے قریب جانے سے کتراتے ۔ ایسے حالات میں مراد سعید نےجس قسم کی سیاست کو پروان چڑھایا ۔ وہ سیاست امن، محبت اور اتحاد کی سیاست تھی۔ اس نے آئی ایس ایف کو ‘محبت فاتح عالم ‘ کا نعرہ دیا جو میں نے اپنے ہاتھوں سے سینکڑوں چارٹس، بینرز اور اشتہارات پر لکھا تھا۔ یہ درست ہے کہ مراد سعید کے کچھ پرچے رہ گئے تھے اور یونیورسٹی میں اس کے گریڈز پر بھی اثر پڑا لیکن اس کے برعکس وہ یونیورسٹی کا نام بھی روشن کرتا رہا، اس نے ساوتھ کوریا اور چین میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔ اس کے دوستوں نے آل پاکستان مقابلوں میں پشاور یونیورسٹی کا لوہا منوایا۔ اگر مراد سعید تقریر میں پہلی پوزیشن لیتا تو خالد لطیف کیف شاعری میں، نوید پینٹنگ میں ، تصورزمان بابر نعت خوانی میں، منصور فوٹو گرافی میں اور عائشہ الیاس مضمون نگاری میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جما لیتے ۔ یہ گروپ کسی بھی یونیورسٹی میں آل پاکستان مقابلے کے لئے جاتا تو گورنمنٹ کالج لاہور اور این سی اے جیسے اداروں پر سکتہ طاری ہوجاتا ۔ ان سب نے پشاور یونیورسٹی کو جتنا دیا پشاور یونیورسٹی تا حیات ان کی مشکور رہے گی۔وہ الگ بات ہے کہ اساتذہ کی آپس کی سیاست طالب علموں اور سیاستدانوں کی آپس کی سیاست پوری قوم کو ڈبو دیتی ہے اور یہ سب کچھ آج مراد سعید کے ساتھ ہورہا ہے۔ جس طریقے سے اسے ذہنی اذیتیں دی گئی اور اس کی نیک نامی اور ذات پر کیچڑ اچالا گیا اور اس کی ڈگری کو سیاست کی نذر کیا گیا، اگر اتنی پھرتی پارلیمنٹ کے دیگر ارکان کے ساتھ ہوتی، تو شاید اس ملک کاسارا نظام ٹھیک ہوجاتا، پارلیمنٹ کے جعلی ڈگری ہولڈرز ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اپنے ڈگریوں کی ویری فیکیشن روکنے کے لئے اس ادارے کو ختم کرنے کی دھمکیاں نہ دیتے اور شاید ملک کے ایک شورش زدہ صوبے کی باگ ڈور ایسے نان سیرئس سیاستدان کے ہاتھ میں نہ دی جاتی جو بڈگری ڈگری ہوتی ہے کے ڈائیلاگ پر آج بھی قائم ہے ۔ غیر ڈگری یافتہ سابق صدر زرداری بھی قائد اعظم کے پاس ڈگری نہ ہونے کا بیان نہ دیتا، پشاور یونیورسٹی کے اےاین پی دور کے وائس چانسلر اور ہائیر ایجوکشن کمیشن کے چئیرمین پلیجرزم میں پکڑے نہ جاتے اور پاکستان کے سیاستدانوں کو سینٹ کے ٹیکنوکریٹ سیٹوں پر جانے کے لئے ہارس ٹریڈنگ اور بولیاں لگانے کی ضرورت درپیش نہ ہوتی ۔ مجھے مراد سعید سے اگر آخر تک ایک شکوہ رہا تو وہ یہی تھا کہ اس کرپٹ سسٹم کا حصہ بن جانے سے بہتر ہے کہ کسی ایسی پارٹی یا تنظیم کا حصہ بن جائے جو اسے جڑ سے اکھاڑنے میں مدد کرے۔ میں نے اسے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کا نظام اس قدر کرپٹ ہوچکا ہے کہ اگر عمران خان اقتدار سنبھال بھی لے تو اسے سمجھ نہیں آئے گی کہ کیسے اس کو ٹھیک کرے اور بدلے میں اسے گالیاں پڑیں گی اور شاید وہ سب کچھ آج سچ ثابت ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ