Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

مایوس کون کھیل، کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کا شبہ بڑھ گیا -

طاہر اصغر۔ ۔۔۔۔ کر کٹ ورلڈ کپ کے لیے جس پا کستانی ٹیم کو میدان میں اتا را گیا، وہ ذہنی طور پر منتشر تھی۔ انہیں کرکٹ کے ترانوں اور گیتو...


طاہر اصغر۔۔۔۔۔
کر کٹ ورلڈ کپ کے لیے جس پا کستانی ٹیم کو میدان میں اتا را گیا، وہ ذہنی طور پر منتشر تھی۔ انہیں کرکٹ کے ترانوں اور گیتوں کا سرور تھا ….تم جیتو یا ہا رو ہمیں تم سے پیار ہو ا…..تو پھر ٹھیک ہے۔کر یں پیار۔ شکستہ پا ٹیم کے وہ نا م جن کو پا نسہ پلٹ دینے والے سمجھا جا تا ہے۔ بیوریج، شیمپو اور دوسری پراڈکٹس کے اشتہا روں میں ما ڈلنگ کرتے کر تے ورلڈ کپ کے لیے نکل پڑے۔ مگر پھر کیا ہو ا۔ چیف سلیکٹر صاحب کسینو میں پائے جاتے ہیں، کہتے ہیں جو ا کھیلنے نہیں کھانا کھانے گیا تھا۔ پا کستا ن کی شکست مجموعی مزاج کا عکا س ہے۔
جب شاہد آفریدی جیسا فیلڈر دو سیدھے کیچ چھوڑے اور بلے باز ’تو چل میں آیا‘ کے مصداق آؤٹ ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یقیناً ٹیم اور مینجمنٹ میں کچھ تو گڑبڑ ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ شائقین اس شکست پر دُکھ اور حیرت کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہوں، لیکن یہ کچھ عجب نہیں کیونکہ جو ملک چار سال ورلڈ کپ کے لیے ٹیم تیار کرے اور پھر عین موقع پر چار سال کی کارکردگی اور ٹیم کے کامبینیشن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’ٹیم کے وسیع تر مفاد میں‘ چند سینئرز کو نوازنے کے لیے فواد عالم جیسے حقدار کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کر دے، تو ایسی ٹیم کے ساتھ ایسا ہونا کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔
پاکستان کے سابق فاسٹ باؤلر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کسی تیاری کے بغیر ورلڈ کپ کھیلنے آئی ہے اور جب تک وہ دفاعی خول سے باہر نہیں نکلے گی اس کا جیتنا مشکل ہے۔ عاقب جاوید نے جو اس وقت متحدہ عرب امارات کی کرکٹ ٹیم کے کوچ ہیں برسبین کے وولن گابا اسٹیڈیم میں اظہار خیال کر تے ہو ئے کہا کہ ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی ٹیم کی تیاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ محنت کسی پر کی گئی، کھلا کسی اور کو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’عرفان سہیل خان اور وہاب ریاض ورلڈ کپ میں کھیل رہے ہیں جب انہوں نے ورلڈ کپ کھیلنا تھا تو پچھلے چند ون ڈے سیریز جو پاکستانی ٹیم نے کھیلیں ان میں یہ باؤلرزکہاں تھے؟‘
عاقب جاوید نے جو 1992ء کا عالمی کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم میں شامل تھے کہا کہ اگر دنیا کی کسی دوسری ٹیم میں سرفراز احمد ہوتے تو وہ انہیں ڈراپ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ’انہوں نے حالیہ میچوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے وکٹ کیپر بیٹسمین کا دیرینہ مسئلہ حل کردیا تھا لیکن ان کا اعتماد بری طرح متزلزل کردیا گیا ہے۔ ‘عاقب جاوید نے کہا کہ اگر یونس خان سے رنز نہیں ہو رہے ہیں تو انھیں ٹیم سے ڈراپ کرنے میں کیا قباحت ہے۔ آسٹریلوی وکٹوں پر مڈل آرڈر بیٹسمین کبھی بھی اچھا اوپنر ثابت نہیں ہوسکتا۔
عاقب جاوید نے کہا کہ اس ورلڈ کپ میں لگ رہا ہے کہ کوئی ایک شخص ٹیم کی کارکردگی کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہے اور ایک دوسرے کے سر پر یہ ذمہ داری ڈالی جارہی ہے۔’یہ تاثر مل رہا ہے کہ کبھی مصباح الحق اور کبھی وقاریونس کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔‘عاقب جاوید نے کہا کہ پاکستانی ٹیم کو دفاعی سوچ بدلنی ہوگی۔ ’ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں درمیان کے اوورز میں نان ریگولر باؤلر کو باؤلنگ دے کر ویسٹ انڈیز کو سنبھلنے کا موقع فراہم کردیا گیا۔‘عاقب جاوید نے کہا کہ سعید اجمل کی غیرموجودگی میں لیگ سپنر یاسر شاہ کی شکل میں پاکستان کے پاس بہترین آپشن موجود ہے۔عاقب جاوید سے جب پوچھا گیا کہ اگر مستقبل میں انھیں پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کی پیشکش ہوئی تو وہ قبول کریں گے تو ان کا جواب تھا کہ وہ اپنی شرائط پر کام کرسکتے ہیں۔’کوچنگ ایک پروفیشنل ذمہ داری ہے اس میں یہ نہیں ہوسکتا کہ آج آپ کمنٹری کررہے ہیں اور پھر اچانک کوچ بن جائیں اور کوئی بھی پروفیشنل یہ نہیں چاہے گا کہ وہ ایسی جگہ جائے جہاں دو مہینے بعد ہی اسے نکالنے کی باتیں ہونے لگیں۔دنیا بھر میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ آپ کوچ لائے اور ایک مہینے بعد ہی اس پر تنقید ہوتی ہے اور تیسرے مہینے سننے میں آتا ہے کہ اسے نکال دو۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ میں مسلسل دو میچوں میں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم نے کوارٹر فائنل تک رسائی کو اپنے لیے مشکل بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے پاکستانی ٹیم کو اچھے رن ریٹ کے علاوہ مخالف ٹیموں کے خلاف بڑے فرق سے جیت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔رمیز راجہ نے کہا کہ اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کو جیت کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہو سکے۔رمیز جو 1992ء میں ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے رکن بھی تھے، کہا کہ اس ورلڈ کپ میں پاکستانی باؤلنگ اُکھڑ گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ورلڈ کپ سے پہلے ہی سعید اجمل اور محمد حفیظ کے باؤلنگ ایکشن مشکوک قرار دے دیے گئے جبکہ جنید خان بھی ان فٹ ہوگئے۔ اس صورتحال میں باؤلنگ اٹیک بری طرح متاثر ہوا اور صحیح کامبینیشن بھی تشکیل نہ دیا جا سکا۔
رمیز راجہ نے کہا کہ باؤلنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ کے مسائل بھی ٹیم کی کارکردگی پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیم میں شامل سینئر بلے باز دباؤ کا شکار ہیں اور اب اس ٹیم میں میچ ونر نہیں رہے ہیں۔ یونس خان کو اوپنر کے طور پر کھلانے کے بارے میں رمیز راجہ نے کہا کہ یہ قدم یونس خان کی ٹیم میں جگہ بنانے کے طور پر اٹھایا گیا۔ ’ٹیم مینجمنٹ کے ذہن میں شاید یہ بات تھی کہ یونس خان کو اوپنر کے طور پر کھلاکر بہترین کامبینیشن تیار کر لیا جائے گا۔‘رمیز راجہ نے یاد دلایا کہ 1992ء کے ورلڈ کپ میں بھی متعدد اوپننگ کامبینیشن آزمائے گئے تھے لیکن پھر عمران خان نے عامر سہیل اور ان پر اعتماد ظاہر کر دیا تھا۔
یہ تو ہونا ہی تھا، میچ سے قبل ہی جس طرح کی اطلاعات آ رہی تھیں اس سے یہ بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ ’شاہین‘ کیا گل کھلانے والے ہیں۔ فیلڈنگ کوچ سے لڑائی تو کبھی کھلاڑیوں کی ہیڈ کوچ سے محاذ آرائی، گراؤنڈ سے باہر کارنامے اور جرمانے، یہ سب وہ کہانیاں ہیں جو ہم گزشتہ ایک سے ڈیڑھ ہفتے میں سنتے رہے۔ہندوستان کے خلاف میچ بہت سی کہانیوں کی ترجمانی کر چکا تھا جبکہ رہی سہی کسر ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں پوری ہو گئی۔
جب میچ کے پانچویں ہی اوور میں ناصر جمشید نے ڈیوین اسمتھ کا کیچ ڈراپ کیا تو یہ پورے میچ کا احوال سنانے کے لیے کافی تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے اور ہوا بھی وہی۔ عمر اکمل نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے کیچ چھوڑا سو چھوڑا لیکن اس مرتبہ لالا بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا نہ بھولے اور دو کیچ گرانے کا شرف حاصل کیا۔ (ایسا اتفاق آفریدی کے 19 سالہ کیریئر میں شاید ہی کسی نے دیکھا ہو) اور پھر محمد عرفان کیوں کسی سے پیچھے رہتے۔ تو گویا پانچ مرتبہ ہمارے ’شاہینوں‘ نے حریف کھلاڑیوں کو پویلین واپس جانے سے باز رکھا۔ میچ میں پاکستانی ٹیم کی باڈی لینگویج اور حالت دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی تیراکی نہ جاننے والے کسی شخص کو ہاتھ پاؤں باندھ کر پانی کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیا گیا ہو۔
مصباح نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا درست فیصلہ کیا لیکن شاید وہ بھول گئے کہ چاہے وکٹ جو بھی ہو، باؤلنگ تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ لیکن یہاں تو ایسا لگا کہ جیسے گلی محلے کے باؤلرز کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ ایک ایسی وکٹ جہاں دنیا کے کسی بھی بلے باز کو پریشان کیا جا سکتا تھا، ہمارے باؤلرز شارٹ پچ اور آڑھی ترچھی گیندیں کر کے حریف بیٹسمینوں کو سیٹ ہونے کا موقع فراہم کرتے رہے جبکہ ساتھ ساتھ فیلڈرز کی عنایتیں بھی جاری رہیں جو یہ بات بتانے کے لیے کافی تھا کہ ہماری ٹیم ماضی کی ’تابندہ روایات‘ کو برقرار رکھتے ہوئے بغیر کسی گیم پلان کے میدان میں اُتری ہے۔پھر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ ویسٹ انڈیز ٹیم نے ایک یونٹ کی طرح کھیلتے ہوئے پہلے سے تتر بتر پاکستانی ٹیم کے خلاف ورلڈ کپ میں اپنا سب سے بڑا اسکور بنا ڈالا۔
جب بیٹنگ شروع ہوئی تو ہمیشہ کی طرح 300 رنز کا ہدف دیکھ ہمارے بلے بازوں کی ٹانگیں کپکپانے لگیں، جس کا نمونہ میدان میں صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے جیروم ٹیلر، جیسن ہولڈر اور آندرے رسل کے بجائے یہ ٹیم گارنر، مارشل، ہولڈنگ، والش، یا ایمبروز جیسے خطرناک باؤلنگ اٹیک کا سامنا کر رہی ہو۔ کھلاڑی جس تیزی سے پویلین سے برآمد ہوتے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے پویلین کی راہ لیتے نظر آئے۔اب ظاہر ہے جو ٹیم ایک کے ہندسے پر چار بیٹسمین گنوا بیٹھے، وہ جیتنے کی اہل تو ہرگز نہیں ہو سکتی، خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ آٹھ بیٹسمین ڈبل فِگر میں بھی داخل ہونے کی زحمت گوارا نہ کریں، وہ بھی ایک ایسے باؤلنگ اٹیک کے خلاف جس پر آئرلینڈ جیسی ٹیم نے تقریباً اتنا ہی مجموعی سکور باآسانی 46ویں اوور میں حاصل کر لیا تھا۔جس جیروم ٹیلر کے خلاف ہمارے تین کھلاڑی بغیر کھاتا کھولے پویلین لوٹے، ان کے خلاف آئرش بلے بازوں نے نو اوورز میں 71 رنز بٹورے۔ورلڈ کپ میں دو میچ ہم ہار چکے ہیں اور صورتحال یہی رہی تو مزید کی بھی قوی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن آخر ایسا ہوا کیوں؟ کیا میڈیا رپورٹس سچی ہیں؟ کیا واقعی کچھ چل رہا ہے؟
جب شاہد آفریدی جیسا فیلڈر دو سیدھے کیچ چھوڑے اور بلے باز ’تو چل میں آیا‘ کے مصداق آؤٹ ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یقیناً ٹیم اور مینجمنٹ میں کچھ تو گڑبڑ ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ شائقین اس شکست پر دُکھ اور حیرت کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہوں، لیکن یہ کچھ عجب نہیں کیونکہ جو ملک چار سال ورلڈ کپ کے لیے ٹیم تیار کرے اور پھر عین موقع پر چار سال کی کارکردگی اور ٹیم کے کامبینیشن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’ٹیم کے وسیع تر مفاد میں‘ چند سینئرز کو نوازنے کے لیے فواد عالم جیسے حقدار کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کر دے، تو ایسی ٹیم کے ساتھ ایسا ہونا کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔
ہمارے کچھ سابق کھلاڑی ہر خرابی کا ذمہ دار کپتان مصباح الحق کو ٹھہراتے ہیں لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر مصباح کی کارکردگی کو ہٹا دیا جائے تو پاکستان گزشتہ سالوں میں حاصل کی گئی متعدد فتوحات سے محروم رہتا۔اصل مسئلہ وہی ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہم آج تک نام نہاد سینئر کھلاڑیوں کے ٹیم اور بورڈ حکام پر اثرورسوخ سے جان چھڑانے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو فواد عالم ضرور ٹیم کا حصہ ہوتے۔
کیا کوئی اس سوال کا جواب دے گا کہ گزشتہ سالوں میں سب سے کامیاب بلے باز فواد عالم کو کس بنیاد پر ٹیم سے باہر کیا گیا؟ ڈومیسٹک اور آسٹریلین لیگ میں شاندار کارکردگی کے باوجود شعیب ملک کو ٹیم کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ اگر پنٹنگولر کپ کی کارکردگی کو زیرِ غور لانا ہی نہیں تھا تو پھر کروڑوں روپے خرچ کر کے اس ایونٹ کے انعقاد کا مقصد کیا تھا؟مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ جب تک ہم پاکستان کرکٹ بورڈ کا صحیح معنوں میں پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اس میں حقیقی تبدیلیاں نہیں لائیں گے، تب تک آپ کسی بھی اسٹار کھلاڑی کو ٹیم میں لے آئیں اور کسی کو بھی کوچ بنا دیں، کچھ نہیں ہونے والا۔اس کی سب سے بڑی مثال ڈیوو واٹمور ہیں۔ وہی ڈیو واٹمور سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے کے کوچ بنتے ہیں تو اس ٹیم میں نئی روح پھونک دیتے ہیں لیکن پاکستان آ کر وہ بھی بیکار نظر آتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے۔ کرکٹ ہاکی کی طرح زبوں حالی کا شکار نہیں ہوا۔ حالانکہ اسی راہ پر رواں دواں ہے، لیکن صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں مکمل پوسٹ مارٹم کی صورت میں ہم اس خراب صورتحال سے باہر نکل سکتے ہیں ورنہ پھر اگلا ورلڈ کپ ہو گا اور پھر ایسی ہی شکست پر شکست۔
ایک سابق کھلاڑی کا تبصرہ سن کر اس وقت شدید جھٹکا لگا جب وہ کچھ یوں گویا ہو ئے۔۔۔ ’1992ء کے ورلڈ کپ میں بھی یہی صورتحال تھی۔ ہم اپنے ابتدائی میچز ہار گئے تھے لیکن پھر ردھم بنا اور ہم نے ورلڈ کپ جیت لیا۔ ابھی ٹیم کو ایک جیت درکار ہے جس کے بعد ورلڈ کپ میں شاندار کم بیک کرے گی‘۔دو دفعہ تو ہم جیسے تیسے دعاؤں اور قسمت کے سہارے ورلڈ چیمپئن بن گئے، لیکن ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ محض دعاؤں اور دعوؤں کے بل بوتے پر ہر دفعہ ورلڈ کپ نہیں جیتا جا سکتا۔ صرف پریس کانفرنسوں میں ہی نہیں، بلکہ گراؤنڈ میں بھی کھیلنا پڑتا ہے، وہ بھی صرف کرکٹ….مگر جیسے یہا ں سے کرکٹ کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اب محض کو ڑا کر کٹ رہ گیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ