کوئٹہ( اردو نیوز ) بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے چائنا کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو پاک چائنا کی بجائے پنجاب چائنا معاہدے قرار دیتے ہو...
کوئٹہ( اردو نیوز ) بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے چائنا کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو پاک چائنا کی بجائے پنجاب چائنا معاہدے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس پورٹ کے لئے سب کچھ کیا جارہا ہے اس صوبے کے عوام اور قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے ، گوادر پورٹ کا معاہدہ ہورہا تھا لیکن وزیراعلیٰ یا صوبے کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا ، بلوچستان کے تمام سیاسی جماعتوں کو یک آواز پارلیمنٹ کے سامنے پرانے روٹ کی بحالی کے لئے غیر معینہ مدت تک دھرنا دینا ہوگا اگر وفاق اور پنجاب کا یہی رویہ برقرار رہا تو محرومیوں اور نفرتوں میں مزید اضافہ ہوگا ۔ ان خیالات کا اظہار مختلف ارکان اسمبلی نے زمرک اچکزئی اور نصراللہ زیرے کی جانب سے گزشتہ روز گوادر کاشغر روٹ اور پاک چائنا اقتصادی معاہدوں میں بلوچستان کو انداز کرنے سے متعلق گزشتہ روز پیش کی گئی دو تحاریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان نے کہاکہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران 45 ارب ڈالر کے 51 معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں گوادر پورٹ سے متعلق بھی معاہدہ شامل ہے 28 ارب روپے کے منصوبوں پر فوری عمل درآمد ہوگا جبکہ 17 ارب ڈالر طویل المدت کے منصوبوں کے لئے رکھے گئے ہیں لیکن ساتھ ہی گوادر کاشغر روٹ کا بھی معاہدہ ہوا جو نئے روٹ کے مطابق بنایا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ معاہدے صرف پنجاب اور چین کے درمیان ہوئے ہیں گوادر کے بغیر یہ معاہدے نہیں ہوسکتے تھے اس لئے مجبوری میں بلوچستان سے اس منصوبے کو شامل کیا گیا انہوں نے کہاکہ پشتونوں نے ملک کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی ہیں مگر اس کا ثمر پنجاب کو مل رہا ہے پشتونوں نے فرنٹ لائن میں کھڑے ہو کر ملک کے لئے قربانیاں دی مگر پشتونوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور اس کا ثمر صرف پنجاب اور وفاق کو مل رہا ہے وزیراعلیٰ بلوچستان واپس آئیں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ وہ بلوچستان کے لئے کیا لے کر آئے ہیں انہوں نے چین سے ہونے والے معاہدوں پر بلوچستان کو نظر انداز کرنے پر ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ خان زیرے نے کہاکہ گوادر کاشغر روٹ سے متعلق 28 فروری کو بھی بلوچستان اسمبلی متفقہ قرار داد منظوری کرچکی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ روٹ کی واضح انداز میں نشاندہی کی جائے اور نقشہ عوام کے سامنے لایا جائے جس کے بعد ہمیں یقین دہانیاں کرائی گئیں کہ وفاقی وزیر احسن اقبال کوئٹہ آکر صورتحال کی وضاحت کریں گے مگر چار پانچ روز قبل وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا جس میں یہ واضح تاثر دیا کہ روٹ تبدیل ہورہا ہے جس پر میں نے تحریک التواء جمع کرائی ۔ انہوں نے کہا کہ چین سے دوستی یقیناًخوشی کی بات ہے مگر 45 ارب ڈالر کے 51 منصوبوں سے لگتا ہے کہ یہ معاہدے پاکستان اور چین کے درمیان نہیں بلکہ پنجاب اور چین کے درمیان ہیں ان معاہدوں میں ہمارے لئے کچھ نہیں گوادر پورٹ کو مجبوری میں شامل کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اقتصادی روٹ پر اقتصادی زون ، ریلوے لائن ، آپٹک فائبر سمیت دیگر ترقیاتی کام ہوں گے مگر اس تمام تر سے بلوچ پشتون عوام کو محروم رکھا گیا ہے کے پی کے کے لئے 3 سو میگاواٹ بجلی کا صرف ایک منصوبہ ہے انہوں نے کہاکہ چین نے پرانا روٹ مانگا مگر اس کی بجائے نئے روٹ کے مطابق کام کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ چین سے ہونے والے معاہدوں میں صرف پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف موجود تھے جبکہ دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ وہاں نہیں تھے تمام منصوبوں کا رخ پنجاب کی طرف موڑنا تاریخ کی بدترین پشتون بلوچ دشمنی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے مگر میڈیا خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا نے بالکل اسے نظر انداز کردیا گیا ہے ایک شخص کی نو نو گھنٹے کی تقریریں تو براہ راست نشر کی جاتی ہیں مگر ہمارے صوبے کی وزیراعلیٰ ہمارے اکابرین محمود خان اچکزئی یا میر حاصل خان بزنجو کی کوئی پریس کانفرنس لائیو نہیں دکھائی جاتی ۔ لاہور اسلام اور کراچی کے سوا کسی شہر کو اہمیت نہیں دی جارہی ہمارے مسائل پر کوئی ٹاک شو نہیں ہوتا یہاں تک کہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کی کاروائیوں کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔ انہوں نے زور دیا کہ میڈیا اس مسئلے کو اجاگر کرے ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سید لیاقت آغا نے کہا کہ احسن اقبال نے ایک پروگرام میں چند ماہ قبل یہ بات کی تھی کہ روٹ تبدیل نہیں ہورہا میڈیا کے پوچھنے پر انہوں نے گول مول جواب دیا میں ان دنوں ایک کانفرنس میں وہاں موجود تھا تو میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ احسن اقبال دانستہ طور پر روٹ کی بات کررہے ہیں تاہم ارکان اسمبلی نے مجھ سے اتفاق نہیں کیا مگر اب واضح ہوگیا کہ روٹ تبدیل کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کی موجودگی میں چین سے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں جن میں اصل معاہدہ گوادر پورٹ سے متعلق ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت پوری دنیا میں معاشی لڑائی ہورہی ہے گلوبل گیم بزنس کا ہے اور گوادر سے بہت بڑا کاروبار ہوگا اس میں بھی ہمارے صوبے کو برابر کا شریک بنایا جائے 45 ارب ڈالر کے منصوبے میں ہمارے لئے کچھ نہیں ۔ چین کی صدر کے آمد پر ائیرپورٹ پر صرف ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کو بلایا گیا گوادر پورٹ پر دستخطوں میں بھی ہماری نمائندگی تک نہیں تھی جس کی نشاندہی میڈیا نے بھی کی ۔ وزیراعظم 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر خوش ہے انہیں یقیناًہونا چاہیے مگر اس میں ہمیں بھی شامل کیا جائے کیونکہ گوادر پورٹ اور ائیرپورٹ کے سوا ہمارا کوئی منصوبہ شامل نہیں ہے ۔ دوسرے صوبوں کے لئے ٹرانسمیشن لائنیں دی گئی ہیں مگر ہمیں نظر انداز کردیا گیا ہے ہمارے صوبے میں ریلوے کے لئے ٹرین تک نہیں دیئے جاتے ہم بھی اس ملک کا حصہ ہے اور یہاں کے عوام نے بھی قربانیاں دی ہیں نواب ثناء اللہ زہری کے بیٹے ، بھائی اور بھتیجے نے بھی قربانی دی ہے معاہدوں پر دستخطی تقریب میں ہمارے وزیراعلیٰ کو بھی بلایا جانا چاہیے تھا ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت پرانے روٹ کو تبدیل نہ کرے اور نہ ہمیں نظر انداز کرے ۔ مسلم لیگ کے شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ صوبے کی ترقی وخوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ روٹ کو خضدار ، کوئٹہ ، ژوب ، ڈیرہ اسماعیل خان سے شاہراہیں ریشم کے ذریعے منسلک کیا جائے اس سے نہ صرف فاصلہ کم ہوگا بلکہ ترقی کی بھی نئی راہیں کھلیں گی ۔ انہوں نے کہاکہ چونکہ سینٹ اور وفاق میں ایک صوبے کی اکثریت ہے اس لئے ہمیں اہمیت نہیں دی جارہی مگر ہم کہتے ہیں کہ اس ملک کی 4 اکائیاں ہیں چاروں کو ایک جیسی اہمیت دی جائے ۔ پرانے روٹ سے بلوچستان سمیت پورا ملک ترقی کرے گا بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تحریک التواء کو مشترکہ قرار داد کی صورت میں منظور کرنا چاہیے ۔ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہاکہ یہ پورے بلوچستان کا مسئلہ ہے ہم سب نے مل کر صوبے کے لئے بات کرنا ہوگی وفاق کو بتانا ہوگا کہ ہم سے ہمارا حق چھینا جارہا ہے مشرف دور میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ گوادر پورٹ کی بلوچستان میں مخالفت ہورہی ہے اس سلسلے میں ہم سے کردار ادا کرنے کو کہا گیا اور کہا کہ گوادر پورٹ بننے سے صوبہ ترقی کرے گا ۔ اقتصادی کاریڈور کے ساتھ ریلوے لائن بچھائی اور تجارتی زون بنائے جائیں گے مگر اب گوادر پورٹ مکمل ہونے کے بعد روٹ کو تبدیل کردیا گیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کو آواز بلند کرنا چاہیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلوچستان اسمبلی کی تمام جماعتیں چینی صدر کی آمد کے موقع پر اسلام آباد جاتیں اور صوبے کا موقف واضح کرتی ۔ انہوں نے کہا کہ چین کے صدر کی آمد پر 46 ارب روپے معاہدے ہوئے ہیں اور یہ تمام سرمایہ کاری صرف گوادر کی وجہ سے ہورہی ہے گوادر پورٹ نہ ہوتا تو اتنی بڑی سرمایہ کاری بھی نہ آتی سب کی نظریں اب اقتصادی کوریڈور پر لگی ہوئی ہے پہلے بھی خطے کے حالات گوادر پورٹ کی وجہ سے خراب ہوئے امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ چین گوادر میں آئے اب جبکہ گوادر پورٹ بن چکا ایسے میں روٹ کی تبدیلی پر پورا صوبہ اٹھ کھڑا ہوا تو وفاق کے لئے مسائل پیدا ہوں گے ۔ انہوں نے کہاکہ اب ایک مرتبہ پھر ہم یہاں سے قرار داد منظور کریں گے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا بلوچستان اسمبلی کی تمام جماعتیں اسلام آباد جا کر حکمرانوں کو بتائیں کہ پورا صوبہ کوریڈور کے مسئلے پر متحد ہے اور پرانے نقشے کے مطابق سڑک بنائی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم مقتدر حلقوں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ روٹ کو تبدیل نہ کیا جائے یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے حکمرانوں سے اس سلسلے میں دو ٹوک بات کی جائے ۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ پرانے روٹ کے مطابق چین کے ساتھ ہمیں بھی سینٹرل ایشیا ء اور افغانستان تک کاروبار کے لئے پانچ نئے راستے ملیں گے ہماری خواہش ہے کہ صوبے کے ایران اور افغانستان سے ملحقہ علاقوں سے تجارت کو فروغ دیا جا ئے ہمارے صوبے کی بڑی اہمیت ہے اور ہم نے اس کو اجاگر کرنا ہے پنجاب میں پہلے ہی کئی ایک صنعتی شہر ہیں مگر ہم صنعتوں سے محروم ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی اس وقت وزیراعظم کے برابر اہمیت ہے جو معاہدوں پر دستخطوں میں شامل ہوتے ہیں مگر باقی صوبوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور دوسرے صوبوں کی پسماندگی ختم کرنے کی بجائے مضبوط مرکز کے ذریعے ایک صوبے کی ترقی کا تاثر دیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پرانے روٹ سے راستہ کم ہوجائیگا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ پرانے روٹ پر کام ہو اس سے ترقی کی راہیں کھلیں گی فیڈریشن مزید مضبوط ہوگا ۔ مسلم لیگ ن کی ثمینہ خان نے کہا کہ وفاق ہماری بات نہیں سن رہا اس لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام آباد جا کر پارلیمنٹ کے سامنے غیر معینہ مدت تک کے لئے دھرنا دیں جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے اس وقت تک ہم نے وہاں سے نہیں ہٹنا چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ گوادر بلوچستان کا حصہ ہے اور ترقی کا سب سے زیادہ حق بھی بلوچستان کو ملنا چاہیے ۔ سیکورٹی کے نام پر بہانہ کیا جارہا ہے کہ یہاں بزنس مین نہیں آتے اور دور دراز علاقوں میں روڈ گزار کر پیسے کے ضیاع کی باتیں ہورہی ہیں ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ عرب صحراؤں میں بھی شاہراہیں تعمیر ہوئیں وہاں ترقی کا دور ودورا ہے ہمارا علاقہ عرب سے زیادہ صحرا نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح لیا جائے جب تک بلوچستان کے پرانے روٹ کو بحال نہ کیا جائے اس وقت تک گوادر پر کام نہ دیا جائے ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو پورٹ پر اختیار دینے کا پورا حق دیا گیا ہے ۔ تحریک التواء پر بھی بحث جاری تھی کہ پینل آف چیئرمین ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے اجلاس جمعہ 24 اپریل سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ تحریک پر بحث آئندہ اجلاس میں ہوگی ۔
کوئی تبصرے نہیں