افضال احمد سيد کی نثری نظم چھینی ہوئی تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ غزل کے بارے میں یہ متفق علیہ بات ہے کہ غزل کے تمام اشعار الگ الگ اپنے لئے معن...
افضال احمد سيد کی نثری نظم چھینی ہوئی تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ
غزل کے بارے میں یہ متفق علیہ بات ہے کہ غزل کے تمام اشعار الگ الگ اپنے لئے معنی رکھتے ہیں اور اس میں سے کسی شعر کو الگ بھی کیا جائے تو نہ پوری غزل پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے بلکہ وہ جدا کیا ہوا شعر بھی الگ سے اپنے پورے معنی کے ساتھ زندہ و تابندہ رہتا ہے ۔
جب کہ نظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں پوری ایک وحدت تاثر ہوتا ہے اور اگر کسی نظم میں سے کسی مصرعے یا سطر کو الگ کیا جائے تو پوری نظم کا نظام یا ڈھانچہ ڈھے جاتا ہے ۔
لیکن ہم جب افضال احمد سید کی کسی نظم کو پڑھتے ہیں تو پہلے تو اس میں غزل کی خوبی بھی نظر آتی ہے ، تشبیہات ، استعارات ، رمز ، کنایہ ، ایمائیت ، منظر کشی تمثال سب اس میں ایک لڑی کی طرح پروئے ہوئے نظر آئیں گے ۔ اور پوری نظم کا ہر بند یا ہر مصرعہ یا سطر اپنے پورے معنی کے ساتھ موجود ہوگا اگر اس نظم سے یہ سطر یا مذکورہ بند نکال بھی دیا جائے تو غزل کے شعر کی طرح نہ نظم کے پورے نظام یا ڈھانچے پر کوئی اثر پڑتا ہے بلکہ وہ بند یا مصرعہ یا سطر بھی اپنے پورے وجود اور شناخت کے ساتھ سلامت رہےگا ۔
جیسے کہ اس نظم چھینی ہوئی تاریخ کے یہ تین بند
ہم نے کسی سفارت خانے میں پناہ نہیں لی
اور نہ کسی گرتے ہوئے جھنڈے کے نیچے
یہ ثابت کرنے کی کوشش کی
کہ ہمارے دونوں ہاتھ خالی ہیں
یا
ہمیں ایک اعلان نامے میں لپیٹ کر
ہمارے قاتلوں کی بندوق کی نال میں ٹھونس دیا گیا
ہمارے پرستار
کبھی نہ ڈوبنے والے جہاز میں بیٹھ کر
پر سکون سمندر میں
آب و ہوا اور ہماری تقدیر کی تبدیلی کے لیے چلے گئے
یا یہ کہ
ہمیں تمام قید خانوں کی
تمام کوٹھڑیوں میں
ایک ایک عمر قید گزارنی تھی
یہ تینوں بند میں نے اوپر متذکرہ نظم سے لئے ہیں یہ تینوں الگ الگ بند ہیں اور تینوں الگ الگ معنی دے رہے ہیں اور نظم کے پورے نظام اور ڈھانچے کو بھی یکجا کئے ہوئے ہیں ۔
پھر ان کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ افضال احمد سید نظم کے اچھے شاعر ہیں یا پھر غزل کے جب ہم ان کی غزل کو پڑھتے ہیں تو ہمیں غزل کے کلاسک اور جدت کے سنگم کے ہی نہیں بلکہ نظم اور غزل کے سنگت کے شاعر نظر آتے ہیں ۔ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ہے غزلوں میں بھی وہی جوش ، ولولہ رعب داعب اور گرجدار لہجہ اور جب نظم کی طرف آتے ہیں تو وہاں بھی ایک بے باک ، بے لحاظ ۔ بے مروت ، بے پروا ، بے تکلف ، بے نیاز ، بے لگام بلکہ کہیں کہیں شتر بے مہار ادیب کے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں ۔
افضال احمد سید کے پاس اتنے موضوعات ہیں کہ ایک ہی نظم میں کئی کئی موضوعات کو سمو لیتے ہیں لیکن ایسے فنکارانہ انداز ، سلیقے ، طریقے اور استکاری سے کہ نظم تو نظم بلکہ نظم میں افسانے ، ناولٹ ، داستان ، مثنوی ، گیت ، ڈرامے ، ثلاثی ، ہائیکو بلکہ نثری کرداروں اور مکالموں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح سے باہم جوڑ دیں گے کہ قاری کو احساس ہونے کے باوجود اپنے محسوسات پر شبہ ہونے لگتا ہے کہ وہ اس وقت ایک نظم پڑھ رہے ہیں یا کئی اصناف کے مطالعے میں مصروف ہیں ۔
متذکرہ نظم چھنی ہوئی تاریخ اس کی بہترین مثال ہے جس میں پہلے چار بندوں میں ایک جیسی کیفیات میں قاری پڑھنے کی گردان کر رہا ہوتا ہے ۔ پھر یکایت موضوع بدل جاتا ہے اور دو چار بندوں کے بعد پھر اپنی مدعے پر آجاتے ہیں ۔ اگر ہمیں ادھر اسی نظم میں ہائیکو دیکھنی ہو، تروینی پڑھنی ہو یا ثلاثی دیکھنی ہو یا پھر سہ مصرعہ پڑھنا ہو تو وہ اس طرح ہمیں ایک بند میں مل سکتا ہے ۔
ہمیں تمام قیدیوں کی
تمام کوٹھڑیوں میں
ایک ایک عمر قید گزارنی تھی
اسی نظم میں اگر افسانے ناولٹ ، داستان کی چاشنی دیکھنی ہو تو یہ بند ملاحضہ فرمائیں
ہمیں اعلان نامے میں لپیٹ کر
ہمارے قاتلوں کی بندوق کی نال میں ٹھونس دیا گیا
ہمارے پرستار
کبھی نہ ڈوبنے والے جہاز میں بیٹھ کر
پر سکون سمندر میں
آب وہوا اور ہماری تقدیر کی تبدیلی کے لئے چلے گئے
اگر اسی نظم میں مثنوی یا گیت کی لذت سے لطف اٹھانا ہو تو ان مصرعوں کا ورد کریں
ایک دوسرے کا بہت طویل بوسہ لیتے ہوئے
شاید ہم بہت زیادہ زندہ تھے
یا یہ کہ
ہم ان کتوں کے بھونکنے سے مر گئے
جنھوں نے کبھی ہماری بو نہیں سونگھی
ڈرامے ،کرداروں اور مکالموں کا چسکہ لینا ہو تو یہ سامان بھی دل لبھانے کے لیے اسی نظمیں میں بڑے احسن طریقے سے موجود ہے۔
شاید تم
بے اندازہ خوبصورت تھی
اور میں
بے حد بے وقوف
شاید میں نے
کبھی پر پیچ مشین کو نہیں چلایا
شاید تم نے
کبھی پٹ مین سے شارٹ ہینڈ نہیں سیکھی
شاید میں تم سے کبھی نہیں ملا
لیکن اس کے باوجود جو نثری نظم کا آہنگ ہے وہ برقرار رہے گا جو نثری نظم کی اپنی وجودیت اور قامت ہے وہ کسی بھی جگہ متزلزل یا کسی جانب جھکی ہوئی نہیں ہوگی وہ ہمہ تن اور سراپا اپنے مواد ،ہییت اور ماہیت کے ساتھ اقامتی اسلوب میں دکھتی ہوئی نظر آرہی ہوگی ۔
اس نظم میں جو ترکیبات استعمال کئے گئے وہ بلکل نئے اور ندرت آشنا ہیں جو پہلی بار سننے کے باوجود بھی نئے نہیں لگتے بلکہ سنے سنائے اور قابل قبول سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ منجمد موت ، دوہری مزاحمت ، قسط وار تحلیل اور اسلحہ کا ایک بروشر بلکل نئے ہونے کے باوجود اجنبی نہیں لگتے بلکہ اپنائیت اور قربت کا احساس دیتے ہیں ۔
اس نظم کے لہجے پر بھی اگر بات کی جائے تو سیدھا سادہ لہجہ پوری نظم میں استعمال نہیں ہوا ہے البتہ کہیں کہیں رومان سے بھرے ، شکووں سے اٹے ہوئے اور اعلان نما آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں لیکن جو دارو بست اور مصرعوں کی بنت کی تازہ کاری ہے وہ قاری کو متاثر کئے بغیر نہیں چھوڑتی جس پر قاری ایک لمحے کے لئے ضرور رکتا ہے اور اپنے ساتھ ان کو خود کلامی کے انداز میں زمزمہ ضرور کرتا ہے جو شعر کے حسن اور معنی کو مہمیز کرتا ہے ۔
اور بلکل سیدھے مصرعے بھی اس نظم میں ملتے ہیں جو غزل کی طرح سہل ممتنع کی یاد دلاتی ہے جیسے کہ
یہ یاد رکھنا مشکل ہو گیا ہے
کہ ہم زندہ رہے تھے
یا یہ کہ
شاید ہم اس ملک میں پیدا نہیں ہوئے
جس کا نام تبدیل ہو گیا
چھینی ہوئی تاریخ کی نظم اپنی تمام تر گریز اور رجوع کے ساتھ آغاز سے انجام تک چل رہی ہوتی ہے اور قاری کو بدلتی ہوئی کیفیات کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنے ساتھ بڑھا رہا ہوتا ہے اور بغیر کسی ادبی پیچیدگیوں کے مسافتی تھکاوٹ کے نظم کی چھینی ہوئی تاریخ کے گوشہ متناہی تک پہنچا دیتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں