Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

یوم آزادی مبارک

  میں نے وزیراعظم ہاوس کے ان کوریڈورز میں کچھ وقت گزارا ہے، لیکن آج انتہائ پرسکون ہوں کہ چار دن کی چاندنی کیلئے اپنا ضمیر نہیں بیچا، اس پاور...


 



میں نے وزیراعظم ہاوس کے ان کوریڈورز میں کچھ وقت گزارا ہے، لیکن آج انتہائ پرسکون ہوں کہ چار دن کی چاندنی کیلئے اپنا ضمیر نہیں بیچا، اس پاور کوریڈور کو خود سے ٹھوکر مار کے مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہو گیا، یہ کوریڈورز کسی کے سگے نہیں، اپنی عاقبت ان کوریڈورز کی خاطر برباد نا کریں


مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا سیکھیں، مظلوم کی آواز بنیں، انسانیت کیلئے کھڑے ہوں، ان کوریڈورز کی تصویریں شرمندگی کا باعث ہی بنتی ہیں، میں آج اپنی کوئ تصویر ان کوریڈورز کی شیئر نہیں کرنا چاہوں گا بلکہ ایسی تصویروں میں شرمندگی محسوس کروں گا 


وزیراعظم ہاوس میں صحافیوں کیساتھ الوداعی تقریب، مجھے اس تصویر میں کوئ بڑا صحافی نظر نہیں آ رہا، نئے صحافیوں کو مشورہ ہے کہ ان تصویروں کی بجاۓ اپنی صحافتی اور اخلاقی ذمہ داریوں پر توجہ دیں، ان تصویروں سے عوام میں کوئ عزت افزائ نہیں ہو گی، صحافت میں نام بنانا ہے تو علم حاصل کریں، تجربہ کار لوگوں سے سیکھنے کی کوشش کریں، اصول اور سچ کی آواز بنیں، یہ تصویریں کچھ کلکس تو دے دیں گے لیکن عزت نہیں ملے گی، پرانے بڑے بڑے صحافی ایسے بھی تھے جن کی پوری زندگی میں ایک تصویر بھی حکمرانوں کیساتھ نہیں تھی، لیکن صحافت کے بڑے نام رھے، چار کو میں اپنے ذاتی تجربے سے جانتا ہوں، مرحوم منو بھائی، مرحوم شفقت تنویر مرزا، مرحوم مسعود اللہ خان اور مرحوم اورنگ زیب! کبھی موقع ملے تو ان صحافیوں کی تحریروں کو پڑھیں، جو امروز، مشرق، پاکستان ٹائمز اور ڈان میں کام کرتے رہے، تاکہ صحافت کا مطلب سمجھ آۓ، ان سب کی زندگی کی پوری کمائ 5-10 مرلے کا گھر تھا، آج تو صحافی لینڈکروزر اور فارم ہاوس سے کم پر تیار نہیں ہوتا، جب صحافت میں لینڈ کروزر اور فارم ہاوس  آ جائیں تو سمجھ جائیں، قلم بک گیا اور خریدنے والا طاقتور بھی ہے اور ارب پتی بھی!

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ