Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

عبد الولی خان بابا کی یاد میں

   گو کہ ولی خان بابا چارسدہ کے رہنے والے تھے…… لیکن ریاستِ سوات کے دور میں والیِ سوات نے اُنھیں سوات میں گھر بنا نے کی اجازت دے رکھی تھی۔ د...


   گو کہ ولی خان بابا چارسدہ کے رہنے والے تھے…… لیکن ریاستِ سوات کے دور میں والیِ سوات نے اُنھیں سوات میں گھر بنا نے کی اجازت دے رکھی تھی۔ دریا ئے سوات کے کنارے مدین اور فتح پور کے درمیان ایک چھوٹے سے گاؤں جرے میں بر لبِ سڑک ان کی رہایش گاہ تھی۔

کبھی کبھی مَیں اُن سے ملنے جایا کرتا تھا۔ معمول کے مطابق ان کے سامنے بیٹھ جاتا اور وہ مجھے اپنے قریب بیٹھنے کے لیے کہا کرتے۔ ایک دن جب بار بار مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کے لیے اصرار کر رہے تھے، تو مَیں نے بابا سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے سامنے بیٹھنے میں دلی سکون ملتا ہے۔ وہ باتیں کرتے جاتے تھے، اور مَیں ہمہ تن گوش سننے میں مگن رہتا۔

بابا سے ایک دفعہ ملنے کے لیے اُس دور کے وزیرِاعظم نواز شریف بھی فتح پور سکول کے گراؤنڈ میں ہیلی کاپٹر سے اُتر کر کار کے ذریعے جرے آئے ہوئے تھے۔

ایک دن ولی خان بابا کا پھو پھی زاد بھائی پروفیسر جہان زیب نیاز لالہ مجھ ملنے آئے۔ کہنے لگے کہ روخان! مَیں تو ولی خان کے ساتھ جرے میں ٹھہرا ہوا ہوں۔ مَیں یہاں امتحانی ہال کے معائنے پر مامور ہوں۔

مَیں نے نیاز لالا سے جواباً عرض کیا کہ ولی خان بابا سے کَہ دیں کہ آج کسی وقت آپ سے ملاقات کرنے روخان آئیں گے۔

پھر جیسے ہی مجھے فرصت ملی، تو دیکھا کہ پرویش شاہین اور مبارزعلی خان کے ساتھ ملاقات کے لیے ولی خان بابا ہمارے انتظار میں گیسٹ ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پرویش شاہین صاحب کا ولی خان سے ملنے کا انداز بہت دید نی تھا۔ پہلے وہ اُن کے چرن چھونے جھکے، پھر آہستہ آہستہ اُوپر اُٹھنے لگے، اور اُنھیں گلے ملے۔ یہ شاہین صاحب کا عقیدت کا نرالا انداز تھا۔

مَیں عام اندازسے اُنھیں گلے ملا۔ وہ باتیں کر رہے تھے اور ہم ہمہ تن گوش تھے۔ اُن کی باتیں ہمارے لیے تاریخ کی پرتیں کھول رہی تھیں۔ بابا علم و آگہی کا خزانہ تھے، جس سے ہم مستفید ہو رہے تھے۔

ایک دن مَیں مین بازار کے سروس شوز سٹور میں بیٹھا تھا کہ ولی خان بابا کی گاڑی ہماری دکان کے سامنے رُکی۔ بیگم نسیم ولی اور ڈاکٹر گلالئی ’’لکی جیمز سٹور‘‘ چلی گئیں اور ولی خان بابا، ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں رہ گئے۔ مَیں بابا سے ملنے دوڑا چلا گیا اور اُنھیں دکان آنے کا کہا، لیکن اُنھوں نے کہا کہ نسیم اور گلالئی ابھی آجائیں گی اور ہمیں واپس جانے کی جلدی بھی ہے۔

مَیں نے پر بابا دکان جانے کے لیے زور ڈالا اور وہ مان گئے۔ اگلے لمحے وہ میرے ساتھ دکان میں بیٹھے تھے۔ سٹاف نے اُنھیں ’’پہ خیر راغلے‘‘ (ویلکم) کہا۔ وہ سب کے ساتھ گلے ملے۔

ولی خان بابا میں بھلا کی اپنائیت تھی۔ مَیں نے ’’ماہنامہ سوات‘‘ میں والیِ سوات کا تازہ انٹرویو شائع کیا تھا۔ وہ میگزین اُن کی نذر کیا۔ اُنھوں نے رسالے میں بڑی دلچسپی لی اور ایک طرح سے خوشی کا اظہار کیا۔ جب وہ جانے لگے، تب اُنھوں دوبارہ سب کے ساتھ معانقہ کیا ۔ مَیں اُن کے ساتھ گاڑی تک گیا اور اُنھیں خدا حافظ کہا۔

ولی خان بابا کا والیِ سوات کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ وہ جب بھی سوات آتے، تو والیِ سوات کی ملاقات کے لیے بلاناغہ جایا کرتے۔ وہ ریاستِ سوات کے حامی تھے اور پاکستان میں ریاستِ سوات کے ادغام کے مخالف تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پختونخوا میں ریاستِ سوات واحد پختونوں کی ریاست ہے، جس کی سرکاری اور دفتری زبان پشتو ہے۔

ریاست کے ادغام کے بعد جب پہلی دفعہ ولی خان بابا سوات آئے، تو وہ کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سے ملنے اُن کے دفتر گئے۔ پھر وہ والیِ سوات سے ملنے اُن کے محل گئے۔ اُن کے ساتھیوں میں سے ایک نے موقع پر ولی خان سے پوچھا کہ یہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ تو اُنھوں نے جواب دیا کہ مَیں وہاں جارہا ہوں جہاں پہلے جایا کرتا تھا۔

اللہ تعالا ولی خان بابا کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، وہ صحیح معنوں میں صرف پختونوں کے نہیں، بلکہ پورے پاکستان کے قائد تھے۔


کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ