Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

میں ہوں دلیب کمار

  اور پہاڑیاں،جو اس حسین منظر کا حصہ تھے،صبح کا زیادہ تر حصہ گزر جانے کے بعد ہی دکھائی دیتے تھے۔ سردیوں کے مہینوں میں جو لوگ نماز فجر کیلئے ...


  اور پہاڑیاں،جو اس حسین منظر کا حصہ تھے،صبح کا زیادہ تر حصہ گزر جانے کے بعد ہی دکھائی دیتے تھے۔

سردیوں کے مہینوں میں جو لوگ نماز فجر کیلئے بیدار ہوتے تھے انہیں مسجد کے قریب وضو کیلئے رکھے ٹینکوں کے پانی کی سطح پر جمی برف کی چادروں کو توڑنے کی آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا۔ برف جیسا ٹھنڈا پانی اور اس کا جسم کے چھلے ہوئے حصے پر پڑتے ہی درد کی چبھن،میری یادوں میں آج بھی تازہ ہیں۔ چاہے وہ موسم سرما کی سختی ہو یا پھر موسم گرما میں میدانی علاقوں میں تواتر سے چلنے والے مٹی کے طوفان،کھیتوں اور باغات میں محنت مشقت کرنے والوں کیلئے زندگی آسان نہیں تھی۔

چاچا عمر مجھے بہت اچھی طرح یاد ہیں۔وہ ہمارے گھر کے پاس ہی رہتے تھے لیکن ان کے دن کا زیادہ تر حصہ ہمارے گھر میں ہی گزرتا تھا۔ وہ،ہمارے والد آغا جی کے ساتھ ہمارے باغات سے پھل لینے جاتے تھے۔ وہ سردیوں میں سردی اور گرمیوں میں گرمی کی شکایت کرتے نظر آتے تھے۔ وہ زیادہ تر گھر میں رہنا پسند کرتے تھے لیکن ایسا کرنا ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ بلاشبہ وہ ایک ایسے انسان تھے جو ہر قسم کے موسم کا مقابلہ کرتے تھے اور میرے والدین اور دادا،دادی ہر مشکل وقت میں اور اس کے علاوہ اگر انہیں کبھی بھی کسی بھی وقت کوئی چیز منگوانی ہوتی تھی تو وہ چاچا عمر سے ہی کہتے تھے۔ وہ آغا جی کے کزن تھے۔ اور میرے خیال میں وہ بھی ہمارے گھر میں انہیں دی جانے والی ہر فن مولا کی حیثیت کا خاموشی سے لطف اٹھاتے تھے۔

چاچا عمر اس رات کا ذکر کثرت سے کرتے تھے جس رات میری پیدائش ہوئی تھی اور سناروں کی گلی میں جہاں ان کی دکانیں اور ورکشاپیں تھیں،آگ بھڑک اٹھی۔ ہمارے گھر کی گلی کا شمارقصہ خوانی بازار کی مصروف ترین گلیوں میں ہوتا تھا۔ وہاں سناروں کے گھر تھے اور ورکشاپیں بھی۔ اس گلی میں دن رات لوگوں کا کاروباری یا ذاتی سرگرمیوں کے حوالے سے رش لگا رہتا تھا۔ حتیٰ کہ تب بھی جب باقی ساری دکانیں بند ہو چکی ہوتی تھیں۔

جس رات میں پیدا ہوا ،اس رات آگ کا بھڑکنابھی ایک داستان بن گیا تھا۔ اس رات دکاندار اپنی دکانیں بند کر رہے تھے تو ان میں سے ایک دکان میں آگ بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوا کی مدد سے وہ آگ بڑی تیزی سے شعلوں کی شکل اختیار کر گئی۔ اور اس نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خوف اور گھبراہٹ کا ایک عالم تھا اور بہت سے مرد آگ بجھانے کیلئے پانی کی بالٹیاں بھر کر لانے کیلئے وہاں اکٹھے ہو گئے۔ یہ کام بہت کٹھن اور محنت طلب تھا کیونکہ سردی کی وجہ سے پانی کے ٹینکوں کے اوپری حصوں میں برف جم چکی تھی۔ لیکن سخت جان اور مضبوط جسم کے مالک پٹھان اپنے طاقتور مکوں کی مدد سے اوپری برف کی تہوں کو توڑ کر ٹینکوں کے نیچے سے پانی کی بالٹیاں بھر کر لا رہے تھے۔

دوصدیوں سے دلوں پر راج کرنے والے دلیپ کمار کا اصل نام یوسف خان ہے۔ وہ ٹریجیڈی کنگ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 1944 ء سے لیکر 1998 ء تک 60 سے زائد بھارتی فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے اور اپنا لوہا منوایا۔ ان کی سب سے پہلی فلم ’’جوار بھاٹا‘‘ تھی جو 1944 ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر نامور فلموں میں انداز،آن،دیوداس،آزاد،مغل اعظم،کنگا جمنا،شکتی،کرما،کرانتی،سوداگر شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم ’’قلعہ‘‘ تھی جو 1998 ء میں پردۂ اسکرین پر نمودار ہوئی۔ انہیں 9 فلم فئیر ایوارڈ کے علاوہ بھارتی حکومت کی طرف سے ’’ پدما بھوشن ایوارڈ‘‘،’’دادا صاحب پھالکی ایوارڈ‘‘ اور پدما ویبھوشن ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ اور 2015 ء میں انہیں راجے سبھا میں اعزازی سیٹ بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ 1997 ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں سینئیر فوجی اعزاز ’’ نشانِ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ دلیپ کمار کی زندگی کھلی کتاب کی طرح نہیں ہے ۔انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں بہت کم کسی کو بتایا ہے لیکن دوستوں کے اصرار پر انہوں نے اپنی کہانی خود پر شائع ہونے والی کتاب میں بیان کی ۔انکی داستان حیات دو تہذیبوں اور دو سرزمینوں پر پھیلی ہوئی ہے،ماضی کی شاندار روایات اور دور حاضر کی حشرسامانیوں کے باوجود دلیپ کمار نے اپنا انداز نہیں بدلا ۔یہ داستان کئی حوالوں سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے ۔روزنامہ پاکستان آن لائن کے قارئین کو یہاں دلیپ کمار کی داستان حیات انہی کی زبانی سنائی جارہی ہے

میں آگ اور طونان کے بیچوں بیچ جنم لے چکا تھااور یہ رات انہونے واقعات سے بھری تھے ۔ہر کسی کا ایمان کی حد تک یقین تھا کہ اس رات پیدا ہونے والا بچہ کوئی عام نہیں ہوسکتا۔پشاور میں پھر کبھی ایسی رات نہیں آئی۔

ہمارے گھر کے سبھی مرد بھی آگ بجھانے میں اپنے دوسرے بھائیوں کی مدد کیلئے اُس گلی کی طرف بھاگے جہاں آگ لگی ہوئی تھی لیکن چاچا عمر کو گھر کی عورتوں کے اکیلے ہونے کی وجہ سے گھر پر ہی چھوڑ گئے۔ اور وہ چاچا عمر ہی تھے جو اس رات میری والدہ کے لئے دائی اماں کو بلانے کیلئے گئے کیونکہ مجھے اس دنیا میں تشریف لانا تھا۔ پہلے وہ دائی اماں کو بحفاظت ہمارے گھر لائے اور اس کے بعد آغا جی کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لئے بھاگے۔

ایک بار جب وہ پرانی یادیں تازہ کرنے کے موڈ میں تھے تو انہوں نے مجھے بتایا ’’ تم جانتے ہو کہ اس رات میں بہت غصے میں تھا اور اپنے آپ کو کوس رہا تھا کیونکہ اس رات ٹھنڈ بہت زیادہ تھی اور ہوا بھی بہت خطرناک انداز سے چل رہی تھی۔ اور تب ایک انسانی زندگی بچانے کیلئے اکیلے باہر نکلنا کسی سزا سے کم نہ تھا۔ لیکن جس لمحے دائی اماں نے اپنا کام ختم کرنے کے بعد تمھاری پیدائش کی خبر سنائی اور ہم نے تمہاری شکل میں ایک ننھے گلابی اور پیارے سے بچے کو دیکھا تو میرا غصہ ختم ہوگیا ، مجھے ایسا لگا جیسے مجھے میری محنت و کاوش کا صلہ مل گیا ہو۔

چاچا عمر میری پیدائش کے بعد میری چیخوں اور آپس میں دی گئی مبارکباد بارے بتاتے ہوئے بہت خوشی محسوس کیا کرتے تھے کہ کیسے محمد سرور خان اور بی بی عائشہ کے گھر چوتھے بچے کی آمد کی خوشی منائی گئی۔ جبکہ دوسری گلی میں آگ لگنے کے باعث افراتفری اور خوف و ہراس کا سماں تھا۔ 


سردیوں کے مہینوں میں آتش دان کے سامنے بیٹھ کر،میں بڑے غیر محسوس انداز سے،بڑوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن کر محظوظ ہوا کرتا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں کم ہی کیا کرتے تھے۔ ان کی زیادہ تر گفتگو عجیب و غریب کہانیوں اور خوفناک واقعات پر مشتمل ہوتی تھی۔ اور خاص طور پر جب وہ آہستہ آواز میں آپس میں ڈراؤنے خوابوں بارے اپنی یادداشتوں کا تبادلہ کیا کرتے تھے تو میں پوری توجہ سے انکی سرگوشیوں کو سننے میں لگا رہتا۔ ایسے ہی ایک موقعے پر میری دادی اماں میرے اس دنیا میں تشریف لانے کی کہانی اپنے سننے والوں کو سنا رہی تھی۔ ساری کہانی سنانے کے بعد انہوں نے چھت کی طرف دیکھ کر اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے یہ جملہ کہا۔

’’ اور عائشہ کا سوہنا بیٹا یوسف تشریف لایا۔‘‘

صرف دادی ہی نہیں محمد سرور خان اور عائشہ بی بی کے گھرانے کا ہر فرد مناسب موقع ملنے پر میری پیدائش کی عظیم داستان سنا تاتھا۔ جیسے یہ کوئی انہونی بات ہو۔ وہ 11 دسمبر 1922 ء کا دن تھا۔ مجھے شک ہے کہ شاید 11 دسمبر کا وہ دن،پشاور کی تاریخ میں بھی درج ہو گا اس لئے نہیں کیونکہ اس دن میں پیدا ہوا بلکہ اس لئے کیونکہ اس دن سناروں کی ورکشاپوں میں آگ لگی تھی۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں،اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی بھی اس طرح کا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا جس طرح کا سانحہ سناروں کی گلی میں پیش آیا تھا۔

میری دادی جان کے خیال میں آگ اور طوفان کے درمیان میری پیدائش میں کوئی حکمت چھپی ہوئی تھی۔ لیکن میرے والدین ان کی اس قسم کی باتوں کو اس دن تک کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے کہ ایک دن جب میں اپنے گھر کے سامنے والے کمرے میں کھیل رہا تھا۔

ایک فقیر کھانا اور پیسے مانگنے کیلئے دروازے پر آیا۔ ہمارے گھر میں دروازے پر آئے فقیروں اور گداگروں کو کھانا اور پیسے دینا عام تھا۔ جیسے ہی اس فقیر نے دروازے پر صدا لگائی تو اماں جلدی جلدی اس کیلئے کھانا باندھنے لگیں جبکہ دادی اپنی آرام دہ کرسی پر آرام سے بیٹھی رہیں۔

اپنے وجود پر نظروں کی چبھن محسوس کرتے ہی میں نے کھیلنا بند کر دیا۔ فقیر کی اونچی آواز نے دادی کو اٹھ کر بیٹھنے اور اس کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس نے ان سے مجھے اس کے سامنے لانے کو کہا۔ وہ ایک لمحے کو ہچکچائیں لیکن وہ آدمی بہت جوش میں تھا اور اس کے اندر کے جذبات اسے اکسا رہے تھے۔ اپنے پانچ سالہ ذہن میں خوف اور تجسس کی ملی جلی کیفیات لئے،اب میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ میں ایک عام بچہ نہیں ہوں۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اور ایسے ظاہر کیا جیسے میں نے اس کے الفاظ سنے ہی نہ ہوں۔ پہلے میری پیدائش پہ وہ ڈرامائی آگ اور برفانی طوفان اور اب فقیر کے یہ الفاظ کہ میں عام بچہ نہیں ہوں۔ میں اب یہ سوچ رہا تھا کہ وہ فقیر اب آگے کیا کہنے جا رہا تھا۔

کسی خاص واقعے کے وقوع پذیر ہونے سے بے خبر،میں اس آدمی کے جانے کے بعد اپنے کزنز کے ساتھ کھیلنے کیلئے گھر سے باہر بھاگ گیا۔ تب مجھے اس بات کا ذرہ برابر اندازہ نہیں تھا کہ اگلے دن سے کس چیز کا آغاز ہونے والا ہے۔ دادی نے مجھے دنیا کی بری نظروں سے بچانے کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔ انہوں نے میرا سر منڈوا دیا اور ہر روز اسکول جانے سے پہلے وہ مجھے بد صورت دکھانے کیلئے میرے ماتھے پر کاجل سے ایک لکیر کھینچ دیتیں۔

اماں نے انہیں یہ بات سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ انکے بچے کو اس قدر بد صورت مت بنائیں کہ دوسرے بچے اس کا مذاق اڑائیں اور اسے احساس کمتری میں مبتلا کر دیں۔

آغا جی نے بھی اپنی ضدی ماں کو ان تمام چیزوں کے نتائج سے خبردار کرنے کی پوری کوشش کی جو وہ میرے ساتھ کر رہی تھیں۔ لیکن دادی ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ ان پر میرے پیار اور حفاظت کا احساس اس قدر غالب تھا کہ انہوں نے میرے والدین کی منتوں سماجتوں اور التجاؤں کو رد کر دیا۔

یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہر صبح جب میں اسکول پہنچتا تو میں ایک تماشا بنا ہوا ہوتا۔ جس طرح کی سرگوشیوں اور دبی دبی ہنسی نے پہلے دن اسکول میں میرا استقبال کیا تھا وہ میرے لا شعور میں بلند ہوتی تھیں اور انہوں نے ہی مجھے اکسایا کہ میں اگلے دن اسکول نہ جانے کے بہانے ڈھونڈوں۔ میں نے اپنے دکھ اور نا خوشی کا اظہار اماں سے کیا اور انہیں وہ تمام باتیں بتائیں کہ کس طرح میرے ہم جماعت اور بڑی جماعتوں کے لڑکے میرا مذاق اڑاتے تھے


اس بات کا یقین کر لینے کے بعد کہ اب وہ فقیر آگے اور کچھ نہیں کہے گا،میں نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا اور وہ ایک مہربان مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے ہوئے تھا۔ دادی نے غیر شعوری طور پر مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا،جیسے اگر وہ مجھے اپنے قریب نہ کرتیں تو کھو دیتیں۔ اس آدمی نے اماں کا لایا ہوا کھانا اور پیسے لئے اور چلا گیا۔

انہیں چائے بنانے کا اس لئے کہا جاتا تھا کیونکہ اس گھر کی دوسری کوئی عورت ان جیسی ذائقہ دار چائے نہیں بناتی تھی۔ یہ وضاحت سن کر پھوپھی بابجان،جو آغا جانی کی بہن تھیں،ان کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور انہوں نے میری ماں کو ایک سائیڈ پر لے جا کر بھیس بدلنے پر ان کی سرزنش کی تھی۔

میری دادی ایک مضبوط ہمت و حوصلے والی خاتون تھیں۔ وہ حاکمانہ طبیعت کی مالک تھیں اور ان کی یہ خوبی وراثتی طور پر میری بڑی بہن سکینہ آپا میں بھی منتقل ہوئی تھیں۔ دادی اپنی تمام باتیں آغا جی سے کیا کرتی تھیں اور اکثر آغا جی بھی انہیں ملکی حالات بارے آگاہ کرتے تھے،جنہیں وہ اپنے حسین بیٹے کے چہرے پر نظریں گاڑھے،بڑے انہماک سے سنتی تھیں۔ یہ روزانہ کا معمول تھا کہ جب وہ مغرب کے بعد مارکیٹ سے گھر لوٹتے،تو ہمیشہ سیدھا دادی کے پاس جاتے،جو اپنے کمرے میں اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھی ان کا انتظار کر رہی ہوتی تھیں۔ ان کے ہونٹ ہلتے رہتے تھے اور ہمیں پتہ ہوتا تھا کہ وہ چپکے سے اپنی تسبیح پڑھ رہی ہوتی تھیں۔



اس فقیر نے اپنی نظریں مجھ پر مرکوز کیں اور دادی سے کہنے لگا ، ’’ یہ بچہ عظیم شہرت اور بے پناہ کامیابیوں کیلئے بنا ہے۔ اس بچے کا اچھے سے خیال رکھو اور دنیا کی بری نظر سے اسکی حفاظت کرنا۔ اگر تم نے اس کا خیال رکھا اور اسے بری نظر سے بچائے رکھا تو یہ بڑھاپے میں بھی حسین ہو گا۔ تمہیں اسے کاجل سے بدصورت بنانا پڑے گا کیونکہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم اسے وقت سے پہلے کھو دو گے۔ اس کا چہرہ ہمیشہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے روشن رہے گا۔


کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ