Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

اشکؔ امرتسری

  اشکؔ امرتسری   کا یومِ وفات  20؍ستمبر       نام  محمد امین اور قلمی نام  اشکؔ امرتسری تھا۔ 31؍جنوری 1900ء کو امرتسر، پنجاب میں ایک تجارت پ...

 




اشکؔ امرتسری   کا یومِ وفات 

20؍ستمبر

     

نام  محمد امین اور قلمی نام  اشکؔ امرتسری تھا۔

31؍جنوری 1900ء کو امرتسر، پنجاب میں ایک تجارت پیش

 خاندان میں پیدا ہوئے۔ اشکؔ امرتسری ترقی پسند شاعری کے امین

 غزل سے زیادہ نظم گوئی میں مقبول تھے۔

 اشکؔ امرتسری 20؍ستمبر 1956ء کو کلکتہ، مغربی بنگال میں انتقال کر گئے، 

 منتخب کلام 

قید ہستی میں ہوں اپنے فرض کی تعمیل تک 

اک نئی دنیا نئے انسان کی تشکیل تک

دام ہم رنگ زمیں پھیلا دیا صیاد نے 

وادیٔ گنگ و جمن سے رود بار نیل تک

آنکھ سے بہہ جائے گا دل میں اگر باقی رہا 

قطرۂ خوں داستان درد کی تکمیل تک

شاعری کا ساز ہے وہ ساز ہو جس ساز میں 

نغمۂ روح الامیں سے بانگ اسرافیل تک

تو ہی اسرار سخن سے ہے ابھی نا آشنا 

ورنہ اس اجمال میں موجود ہے تفصیل تک

بس نہیں چلتا ہے ان کا ورنہ یہ ظلمت پرست 

اپنی پھونکوں سے بجھا دیں عرش کی قندیل تک

اشکؔ اپنے سینۂ پر خوں میں سیل اشک بھی 

روک رکھتا ہوں جگر کے خون کی تحلیل تک 

.....

کشمکش میں ہیں تری زلفوں کے زندانی ہنوز 

تیرگی پیہم ہے خم در خم پریشانی ہنوز

رکھتے ہیں ہم مقصد تعمیر نو پیش نظر 

گرچہ ہیں منجملۂ اسباب ویرانی ہنوز

سطح دریا پر سکوں سا ہے مگر اے سطح بیں 

قعر و دریا میں وہی موجیں ہیں طوفانی ہنوز

اب جنوں میں بھی نہیں آتا ہے صحرا کا خیال 

شہر حکمت میں ہے وحشت خیز ویرانی ہنوز

پرسش اہل قلم ہو یا نہ ہو ہوتی تو ہے 

سنگ مرمر کے مزاروں پر گل افشانی ہنوز

ہم نے رکھ دی قالب اشعار میں چیز دگر 

تم نہیں کر پائے تکمیل زباں دانی ہنوز

اشکؔ اصول کسب زر سے تو نہیں ہے آشنا 

تشنۂ تکمیل ہے تیری ہمہ دانی ہنوز

....

یہ کشتیٔ حیات یہ طوفان حادثات 

مجھ کو تو کچھ خبر نہ رہی آر پار کی

ہے گردش زمانہ میں دو رنگیٔ حیات 

امید کی سحر ہے تو شب انتظار کی

یہ دیر یہ حرم یہ کلیسا یہ سومنات 

تعریف کیا ہو قدرت پروردگار کی

ہے کون جو اٹھا سکے بار غم حیات 

ہم نے بھی گر قبائے خرد تار تار کی

اللہ رے تصادم حالات و حادثات 

کی اختیار سنگ نے صورت شرار کی

ذروں کی آب و تاب سے تاروں نے کھائی مات 

یہ خوبیاں ہیں خاک ترے انکسار کی

اے اشکؔ زندگی میں نہ پوچھی کسی نے بات 

اب خاک چومتے ہیں ہمارے مزار کی

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ