Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

ڈاکٹر توصیف تبسم

 معروف شاعر،نقاد،ادیب اور استاذالاساتذہ، ڈاکٹر توصیف تبسم ہم میں نہیں رہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون (ولادت: 3 اگست 1928ء - وفات: 5 اکتوبر 2...


 معروف شاعر،نقاد،ادیب اور استاذالاساتذہ، ڈاکٹر توصیف تبسم ہم میں نہیں رہے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون

(ولادت: 3 اگست 1928ء - وفات: 5 اکتوبر 2023ء)

ڈاکٹر توصیف تبسم کا اصل نام محمد احمد توصیف ، اور تخلص تبسم تھا۔

آپ ۳؍اگست ۱۹۲۸ء کو بدایوں کے ایک قصبہ سہسوان میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد راول پنڈی آگئے۔ گورڈن کالج، راول پنڈی سے ایم اے کیا۔ ’’منیر شکوہ آبادی‘‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نظم بھی کہتے مگر غزل ان کی محبوب صنف ہے۔ ۱۹۵۲ ء سے باقاعدہ مقتدر ادبی رسائل میں کلام چھپ رہا ہے۔ ان کی شناخت ایک مبصر کی حیثیت سے بھی ہے۔’’کوئی اور ستارہ‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ چھپا جس پر علامہ اقبال ہجرہ ایوارڈ ملا۔ ’’مثنویات دہلی کا تہذیبی و معاشرتی مطالعہ‘‘ کے موضوع پر مقالہ اب تک غیر مطبوعہ ہے۔ 

واہ کینٹ کے پروفیسر عبدالمنان نے ڈاکٹر توصیف تبسم کی رہنمائی میں جناب ظفر ابن متین کی زندگی اور شاعری پر اپنا شاندار مقالہ لکھا۔

ڈاکٹر صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔

اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین

.....

توصیف تبسم کے اشعار

....

پاؤں میں لپٹی ہوئی ہے سب کے زنجیر انا 

سب مسافر ہیں یہاں لیکن سفر میں کون ہے 

.....

شوق کہتا ہے کہ ہر جسم کو سجدہ کیجے 

آنکھ کہتی ہے کہ تو نے ابھی دیکھا کیا ہے 

.....

دل کی بازی ہار کے روئے ہو تو یہ بھی سن رکھو 

اور ابھی تم پیار کرو گے اور ابھی پچھتاؤگے 

....

اچھا ہے کہ صرف عشق کیجے 

یہ عمر تو یوں بھی رائیگاں ہے 

....

دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں 

رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں 

....

جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے 

خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں 

....

کون سے دکھ کو پلے باندھیں کس غم کو تحریر کریں 

یاں تو درد سوا ہوتا ہے اور بھی عرض حال کے بعد 

...

کیا یہ سچ ہے کہ خزاں میں بھی چمن کھلتے ہیں 

میرے دامن میں لہو ہے تو مہکتا کیا ہے 

...

دکھ جھیلو تو جی کڑا ہی رکھنا 

دل ہے تو حساب دوستاں ہے 

...

دل بیاض عمر کی اوراق گردانی میں ہے 

کیا خبر ہے کون سا صفحہ کھلا رہ جائے گا 

...

ہُوں ایک عُمر سے اوڑھے ہُوئے بدن اپنا

جو بن پڑے تو بدل لوں نہ پیرہن اپنا 

کل نہ روئے گی کوئی شاخِ عزادار انہیں

ان شگوفوں سے کہو شاملِ ماتم ہو جائیں

نہ دیکھ پاؤ گے رنگِ شکست محفل کا

یہاں سے اُٹھ ہی چلو ہاوہُو کے ہوتے ہوئے

دل پہ دی بھاگتے لمحے نے دوبارہ دستک 

آئی آواز ۔ یہ دَر بند ہُوا ، بند ہُوا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ