Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

امجد اسلام امجد

  تیرے ارد گررد وہ شور تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی نہ میں کہہ سکا نہ تو سن سکا ، مری بات بیچ میں رہ گئی میرے دل کو درد سے بھر گیا ، مجھے بے...


 



تیرے ارد گررد وہ شور تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

نہ میں کہہ سکا نہ تو سن سکا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


میرے دل کو درد سے بھر گیا ، مجھے بے یقین سا کرگیا

تیرا بات بات پہ ٹوکنا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


ترے شہر میں مرے ہم سفر، وہ دکھوں کا جم غفیر تھا

مجھے راستہ نہیں مل سکا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


وہ جو خواب تھے مرے سامنے ، جو سراب تھے مرے سامنے

میں انہی میں ایسے الجھ گیا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


عجب ایک چپ سی لگی مجھے ، اسی ایک پل کے حصار میں

ہوا جس گھڑی ترا سامنا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


کہیں بے کنار تھیں خواہشیں ، کہیں بے شمار تھیں الجھنیں

کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


تھا جو شور میری صداؤں کا ، مری نیم شب کی دعاؤں کا

ہوا ملتفت جو مرا خدا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


مری زندگی میں جو لوگ تھے ، مرے آس پاس سے اٹھ گئے

میں تو رہ گیا انہیں روکتا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


تری بے رخی کے حصار میں ، غم زندگی کے فشار میں

مرا سارا وقت نکل گیا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


مجھے وہم تھا ترے سامنے ، نہیں کھل سکے گی زباں مری

سو حقیقتا بھی وہی ہوا ، مری بات بیچ میں رہ گئی


امجد اسلام امجد

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ