Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

احمد ندیم قاسمی

  احمد ندیم قاسمی اپنی کتاب ” میرے ہم سفر “ میں لکھتے ہیں:  دیوار چین کی سیر کرنے کے بعد جب ہم لوگ پاکستانی مدیران کا وفد دیوار ہی کے قریب ا...

 

احمد ندیم قاسمی



احمد ندیم قاسمی اپنی کتاب ” میرے ہم سفر “ میں لکھتے ہیں: 


دیوار چین کی سیر کرنے کے بعد جب ہم لوگ پاکستانی مدیران کا وفد دیوار ہی کے قریب ایک ریستوران میں چائے پی رہے تھے تو ہمارے میز بانوں نے اصرار کیا کہ ہم انہیں پاکستانی قومی ترانہ سنائیں۔ حفیظ صاحب کا لکھا ہوا ترانہ ہمارا قومی ترانہ قرار پایا تھا، مگر یہ نیا نیا واقعہ تھا، اس لیے یہ ترانہ ہم میں سے کسی کو یاد نہیں تھا۔ چینی دوستوں کی فرمائش پر ہم لوگ بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، جب مولانا اختر علی خان نے گومگو کی یہ کیفیت اپنی حاضر دماغی سے ختم کر دی۔ انہوں نے ہم سب کو کھڑے ہونے کا حکم دیا، اور اُس کے بعد وہ ہاتھ باندھ کر اپنے ابا جی مرحوم مولانا ظفر علی خان کی یہ مشہور نعت پڑھنے لگے، اور ہم سب اُن کے ساتھ شامل ہو گئے :


" وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں " چینی دوست مؤدب کھڑے رہے، اور جب ہم نے ” کچھ فرق نہیں ان چاروں میں " تک پہنچ کر ترانہ ختم کیا تو انہوں نے ہمیں اپنا قومی ترانہ سنایا، اور ہم نے بھی مؤدب کھڑے ہو کر یہ ترانہ سنا۔ بعد میں ہم سب واپس ہوٹل میں آئے تو ایک جگہ جمع ہوئے اور فیض صاحب نے ہم سب کی طرف سے مولانا اختر علی خان کا شکریہ ادا کیا کہ اُن کی حاضر دماغی نے ہمیں شرمندہ ہونے سے بچالیا۔


منقول

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ