سیاسی ڈراموں کا موسم آج کل اچھے ڈرامے اور فلمیں تو نہیں بن رہیں تاہم بعض واقعات اچھے بلکہ سنسنی خیز ڈراموں جیسا مزا دے جاتے ہیں،چند ر...
سیاسی ڈراموں کا موسم
آج کل اچھے ڈرامے اور فلمیں تو نہیں بن رہیں تاہم بعض واقعات اچھے بلکہ سنسنی خیز ڈراموں جیسا مزا دے جاتے ہیں،چند روز پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں ٹاک شو کے دوران مار دھاڑ سے بھرپور ڈرامہ ہوا تو یاران مکتب و سیاست نے اُسے بہت انجوائے کیا۔یہ بحث بھی چلی کہ اُس میں کس کا پلڑا بھاری رہا اور کون زیر ہوا،اس سے بھی سنسنی خیز ڈرامہ کل دیکھنے کو ملا جب پانچ ماہ سے غائب عثمان ڈار اچانک ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان کامران شاہد کے گھر پہنچ گئے اور اُس روز ٹی وی شو کی ر یکارڈنگ بھی سٹوڈیو کی بجائے گھر میں کی گئی،25 دن پہلے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ عثمان ڈار جو خیر سے پی ٹی آئی کے رہنما رہے ہیں،کراچی سے اغواء کر لئے گئے ہیں، پھر اُن کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے اور کون انہیں اُٹھا کر لے گیا، اُس سے پہلے یہ خبریں آتی رہیں کہ پولیس انہیں گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مار رہی ہے،اُن کے گھر کو بھی سیل کیا گیا۔ اس قدر مطلوب شخص کا بغیر کسی رکاوٹ کے ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان کی رہائش گاہ تک پہنچ جانا مقامِ حیرت تو ہے۔شاید پریس کانفرنس سے بات آگے نکل گئی ہے اور اب ٹی وی کے مقبول پروگراموں کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔بہرحال اس ”ڈرامے“ نے مزا بہت دیا۔ عثمان ڈار نے9مئی کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات کر کے اس مزے کو دوبالا کر دیا،اچھا ہے رونق میلہ لگا ہوا ہے وگرنہ عوام کے لئے کوئی اچھی خبر تو آئی نہیں،کبھی بجلی مہنگی ہونے کی خبر آتی ہے اور کبھی پٹرول کو مہنگا کرنے کا فیصلہ سننے کو ملتا ہے۔اب ایک اور خبر آئی ہے کہ عالمی بنک نے پچاس ہزار روپے سے کم آمدنی والوں پر بھی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔اسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار۔ لمحہ ئ موجود میں دیکھا جائے تو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی نظر آتا ہے کہ کسی طرح تحریک انصاف کو منظر سے غائب کر دیا جائے،ترجیحات پی ڈی ایم کے دور میں بھی یہی تھیں اور اب نگران حکومت کے دور میں بھی یہی ہیں۔یہ سلسلہ تو غالباً ابھی لمبا چلے گا،اسی دوران یہ خبریں بھی دِل کو خوش کرنے کا باعث بنتی ہیں کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یقین دلایا ہے کہ فوج معیشت کی بحالی میں تعاون کرے گی جبکہ وزراء نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کے نتیجے میں ایک ٹریلین روپے کے ٹیکس کی بچت ہو گی۔سنسنی خیز ڈراموں کے ساتھ ساتھ ایسی دل خوش باتیں مزا دو آتشہ کر دیتی ہیں اور ایک ایسی فضاء میں جو مایوسی اور بے یقینی میں ڈوبی ہوئی ہے امید و بیہم کے نئے چراغ روشن کر دیتی ہے۔ انتقامی بیانیے کے ساتھ واپس آنا چاہتے تھے انہوں نے لندن کی ایک پریس کانفرنس میں اس کا اظہار بھی کر دیا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت اور ترقی کا سفر روکنے والوں کو قانون کی گرفت میں لائے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا،مگر شہباز شریف کی لاہور سے لندن کی تیز تر یاترا نے پانسہ پلٹ دیا۔اب اُن کا بیانیہ یہ ہے کہ نواز شریف سے زیادتی کرنے والوں کا سب کو علم ہے تاہم فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ اُن سے انتقام نہیں لینا۔یہاں سوال یہ ہے کہ اس پالیسی کا اطلاق کیا عمران خان پر بھی ہو گا۔اُن کے بارے میں بھی انققام نہیں سیاست کا نظریہ اپنایا جائے گا؟ ملک اِس وقت جس بند گلی کی سیاست میں ہے،اُس سے نکلنے کے لئے واحد راستہ تو یہی ہے انتقام کی سیاست سے دور رہا جائے۔ مفاہمت اور ہم آہنگی اس کے لئے اشد ضروری ہے لیکن مسلم لیگ(ن) کی جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل(ر) فیض حمید نیز ثاقب نثار اور بعض دیگر سابق ججوں کو تو درگذر کی پالیسی کے تحت ”عام معافی“ دینے کو تیار ہے،لیکن عمران خان کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتی۔سیاسی حوالے سے آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں کشیدگی کا کا خاتمہ ہو۔ مسلم لیگ(ن) کی بظاہر تو پالیسی یہی نظر آتی ہے کہ اُسے کسی طرح فری ہینڈ مل جائے۔پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ نواز شریف کی واپسی کو محفوظ بنایا جائے۔دوسرا مرحلہ اُن کی سزاؤں کا خاتمہ ہے۔اس کے بعد وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ سیاسی میدان میں اُسے مکمل طور پر کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے۔اُس کی اسی خواہش کو بھانپتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یہ شکایت کر رہے ہیں کہ ہیں برابری کے مواقع نہیں دیئے جا رہے۔سب کو معلوم ہے کہ انتخابات میں اصل میدان پنجاب میں سجے گا۔ مسلم لیگ(ن) کی سر توڑ کوشش یہی ہے کہ پنجاب میں اپنا مقام دوبارہ حاصل کیا جائے،لیکن یہ اتنا آسان نہیں پنجاب کا سیاسی مزاج بہت تبدیل ہو چکا ہے۔نواز شریف کی واپسی ایک ترپ کا پتہ ہے۔یہ چل گیا تو پانسہ پلٹ جائے گا نہ چلا تو بقول فیصل واوڈا مسلم لیگ(ن) کی سیاست ختم ہو جائے گی،آنے والے دِنوں میں بہت سے سنسنی خیز ڈرامے دیکھنے کو ملیں گے۔سیاسی شعور کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے عوام ان ڈراموں سے کس حد تک متاثر ہوتے ہیں۔اس کا اندازہ بہت جلد ہو جائے گا۔البتہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ عوام کو بیوقوف بنانا اب آسان نہیں رہا۔
کوئی تبصرے نہیں