Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

‏نسلہ ٹاور بمقابلہ ڈی ایچ اے ٹاورز

‏نسلہ ٹاور بمقابلہ ڈی ایچ اے ٹاورز  یہ کراچی کا نسلہ ٹاور نہیں جسے چیف جسٹس گلزار جیسے بدمعاش جج سپریم کورٹ کے ہتھوڑے سے ملبے کا ڈھیر بنا کر...


‏نسلہ ٹاور بمقابلہ ڈی ایچ اے ٹاورز 

یہ کراچی کا نسلہ ٹاور نہیں جسے چیف جسٹس گلزار جیسے بدمعاش جج سپریم کورٹ کے ہتھوڑے سے ملبے کا ڈھیر بنا کر سینکڑوں خاندانوں کو چھت سے محروم کر دیتے، یہ ڈی ایچ اے کے وہ پلازہ ہیں جو پبلک پارک، اسکول، سیورج پلانٹ اور قبرستان کے لئیے مختص جگہ پر غیر قانونی طور پر تعمیر کئیے گئے ہیں، سندھ ہائی کورٹ کے ایک سنگل (پسلی) جج نے دس سال پہلے (موقعے پر صورتِ حال جوں کی توں برقرار رکھتے ہوئے) تعمیر رکوا دی مگر پھر ایک مہینے بعد ہی اپنے خرچے پر نقصان کے احتمال کی بنیاد پر تعمیر کی اجازت دے دی اس شرط پر کہ ان پلازوں میں دفاتر یا فلیٹوں کی خریداری پر پابندی ہو گی۔ دس سال بعد سنگل (پسلی) جج نے درخواست خارج کر دی، مگر سندھ ہائی کورٹ کے ڈبل بنچ (سنگل پسلی) نے پرانا مشروط سٹے آرڈر بحال کر دیا
اب وکلا کے ذریعے درخواست گذار فریق کو اخبار میں اشتہار دینا پڑھ رہا ہے کہ کوئی بھی ان پلازوں میں سرمایہ نہ لگائے۔ 
سوال یہ ہے کہ اگر نسلہ ٹاور میں بسے انسانوں کو بے گھر کر کے اُسے ملبے کا ڈھیر بنایا جا سکتا ہے تو ڈی ایچ اے کے پلازے میں غیر قانونی تعمیر کو سہولت دینے کے لئیے دس سال تک مشروط سٹے آرڈر کیسے جاری رہ سکتا ہے؟ اس مقدمے کا فیصلہ کیوں نہیں ہوا؟

مطيع الله جان

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ