Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 1

   دی کنڑیکٹر ریمنڈ ڈیوس کتاب   ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان آنے والاایسا امریکی جاسوس قرار دیا جاتا ہے جس نے لاہور میں دو افراد کودن دیہاڑے گولیاں...

 


 دی کنڑیکٹر ریمنڈ ڈیوس کتاب 


ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان آنے والاایسا امریکی جاسوس قرار دیا جاتا ہے جس نے لاہور میں دو افراد کودن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کیا اور پھر گرفتار ہوا ۔ اس پر قتل کا مقدمہ چلا اور قریب تھا کہ اسے سزائے موت سنا دی جاتی لیکن حالات نے ڈرامائی موڑ لے لیا ۔ اچانک مقتول کے ورثا دیت پر راضی ہو گئے ۔ کروڑوں روپے دیت کی رقم کس نے ادا کی اس پر متضاد رائے ہے کیونکہ کوئی بھی اس رقم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوا ۔ بہرحال یہ شخص جسے کبھی سفارتی عملہ کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی تو کبھی اسے بلیک واٹر کے قاتل کورڈ کا حصہ قرار دیا گیا، باآسانی پاکستان سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ وہاں اس نے اس ساری صورت حال پر ’’ کنٹریکٹر ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ڈیلی پاکستان آن لائن میں قسط وار پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادارہ یا قاری کا اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کتاب پڑھتے وقت یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جو خود کو کچھ بھی کہے لیکن پاکستان کے عوامی حلقوں میں اسے جاسوس قرار دیا جاتا ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے عزائم اور اسکے ’’مالکوں‘‘ کی فطرت اور طریقہ کار کو سامنے لانے کی غرض سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنا قومی مفاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب میں جو ’’انکشافات‘‘ کئے گئے ہیں انہوں نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے ۔ کتاب کا ترجمہ و تلخیص نامورتحقیقاتی صحافی سید بدر سعید نے کیاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں چھپنے والی پہلی اردو تحقیقاتی رپورٹ سید بدر سعید نے ہی لکھی تھی ۔ مصنف اس سے قبل ’’خودکش بمبار کے تعاقب میں ‘‘ اور ’’صحافت کی مختصر تاریخ . قوانین و ضابطہ اخلاق ‘‘ جیسی تحقیقاتی کتب لکھ چکے ہیں ۔ انہیں دہشت گردی ، طالبانائزیشن اور انٹیلی جنس امور پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے ۔وہ پاکستان کے اہم صحافتی اداروں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں

ہوتے تو بیرون ممالک کام کرنے والے مزید کئی امریکی شہری قتل ہو گئے ہوتے ۔ جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں انتہائی خراب سڑکیں ہیں جبکہ ہم سفر کے لئے ایس یو وی گاڑی پسند کرتے تھے ۔ ایک واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمیں کن حالات میں کام کرنا پڑ رہا تھا ۔ ایک بار افغانستان میں ایک اہم آپریشن کے لئے میں بڑی ایس یو وی وین لے گیا تھا لیکن دوران سفر اس کا فریم ٹوٹ گیا اور ہم اسے بہت مشکل سے ایک اور گاڑی کے پیچھے باندھ کر واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔ لاہور میں ہمارے پاس نسبتاً چھوٹی ایس یو وی تھی ۔ میرا ٹیم لیڈر اسی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ میں نے ہمیشہ ٹیم ورکر کے طور پر اپنی ذمہ داری ادا کی ہے لہذا اس وقت بھی میں نے ٹیم رکن کے طور پر اسے کہا کہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ ایس یو وی لے جائے ۔ میں آج سفید سیڈان میں چلا جاؤں گا۔میرا ارادہ کرایہ کی کار لے کر لاہور کی سڑکوں پر گھومنے کا تھا ۔ یہاں سے ان واقعات کا آغاز ہوا جس نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا اور پھر یہ سب جان ایف کینڈی سکول ہارورڈ میں ایک کیس سٹڈی کے طور پر پڑھایا گیا کہ کس طرح بظاہر بے ضرر اور چھوٹے چھوٹے واقعات مل کر ایک بڑے بحران کو جنم دیتے ہیں ۔ لاہور میں میرے ساتھ پیش آنے والا یہ حادثہ نصابی کتب میں ایک کیس سٹڈی کے طور پر محفوظ ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میرے نام سے جڑ گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی غلطی سفارتی بحران بن کر آپ کے پیچھے ہو تو پھر آپ ساری عمر اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔ یہ سب میرے ساتھ تب شروع ہوا جب میں نے ایک کنٹریکٹر اور پیشہ ور محافظ ہونے کے باوجود رضاکارانہ طور پر ایک ایسی گاڑی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جوان حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی جن کا اس روز مجھے سامنا کرنا پڑا ۔ اگر اس دن بھی میں تھوڑا جلدی اٹھ جاتا تو شاید یہ سب نہ ہوتا ۔(جار ی ہے)


کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ