Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

ساغر صدیقی (پیدائشی نام محمد اختر

  ساغر صدیقی ساغر صدیقی (پیدائشی نام محمد اختر ) (1974–1928) ایک اردو زبان کے پاکستانی شاعر تھے۔ وفات 19 جولائی 1974 (عمر 46) لاہور، پاکستان...


 


ساغر صدیقی

ساغر صدیقی (پیدائشی نام محمد اختر ) (1974–1928) ایک اردو زبان کے پاکستانی شاعر تھے۔

وفات
19 جولائی 1974 (عمر 46)
لاہور، پاکستان

قلمی نام
ساغر

پیشہ
شاعری

اصناف
غزل، نظم، آزاد نظم

خاندان
اصل خاندان ان کا انبالے سے تھا اور وہ پیدا بھی انبالے میں ہوئے۔ سال 1964ء کا تھا۔ گھر میں ہر طرف افلاس اور نکبت کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں تعلیم کا کیا سوال! محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے، انہیں کے پاس جانے آنے لگے۔ جو کچھ پڑھا انہیں سے اس کے بعد شاید ورنیکلر مڈل کے کچھ درجے بھی پاس کر لیے ہوں۔ ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آکر امرتسر کی راہ لی اور یہاں ہال بازار میں ایک دکان دار کے وہاں ملازم ہو گئے جو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے بھی یہ کام سیکھ لیا۔ دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دکان کے کسی گوشے میں پڑے رہتے۔ لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور اتنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔

ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ "لڑکا" (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔

قدرتا اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں اس کی مانگ بڑھ گئی۔ اب اس نے کنگھیاں بنانے کا کام چھوڑ دیا اور بعض سرپرست احباب کی مدد سے اپنا علم اور صلاحیت بڑھانے کی کوشش کی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ اسے اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ گھر والے بے شک ناراض تھے کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا۔ لیکن اسے ان کی کیا پروا تھی، اس نے گھر آنا جانا ہی چھوڑ دیا۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔

1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلا گیا۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے اسے گیتوں کی فرمائش کی اور اسے حیرتناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساحر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔

1947ء سے 1952 تک ساغر کی زندگی کا زرّیں دور کہا جا سکتا ہے۔ وہ لاہور کے کئی روزانہ اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک ہو گیا، بلکہ بعض جریدے تو اسی کی ادارت میں شائع ہوتے رہے۔ لیکن اس کے بعد شامت اعمال سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ کہیں کا نہ رہا اور اخیر میں صحیح معنوں میں مرقّع عبرت بن گیا۔

1952ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔

اس زمانے میں وہ انارکلی لاہور میں ایک دوست کے والد (جو پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے) مطب کی اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ اسی کمرے میں ان کے ساتھ ایک دوست بھی مقیم تھے (اب نام کیا لکھوں) ان صاحب کو ہر طرح کے نشوں کی عادت تھی۔ ہوتی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ان کی صحبت میں ساغر بھی رفتہ رفتہ اولا بھنگ اور شراب اور ان سے گزر کر افبون اور چرس کے عادی ہو گئے۔ اگر کوئی راہ راست سے بھٹک جائے اور توفیق ایزدی اس کی دستگیری نہ کرے، تو پھر اس کا تحت الثری سے ادھر کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔

یہی ساغر کے ساتھ ہوا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر ان کے ساتھ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو آنا جانا چھوڑ دیا۔ اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت "بے خود" رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور بالکل آوارہ ہو گیا۔ نوبت بايں رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک ہی میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پانو۔۔۔۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹ لیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا۔

اب اس کی یہ عادت ہو گئی کہ کہیں کوئی اچھے وقتوں کا دوست مل جاتا تو اس سے ایک چونی طلب کرتا۔ اس کی یہ چونی مانگنے کی عادت سب کو معلوم تھی چنانچہ بار بار ایسا ہوا کہ کسی دوست نے اسے سامنے سے آتے دیکھا اور فورا جیب سے چونّی نکال کر ہاتھ میں لے لی۔ پاس پہنچے اور علیک سلیک کے بعد مصافحہ کرتے وقت چونی ساغر کے ہاتھ میں چھوڑ دی۔ وہ باغ باغ ہو جاتا۔ یوں شام تک جو دس بیس روپے جمع ہو جاتے، وہ اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔

ساغر کو خدا یاد نہیں.۔
19 جولائی

اردو ادب کے ممتاز شاعر جناب ساغر صدیقی کا یوم وفات ہے. ساغر کا تعلق انبالہ کے ایک انڈین ٹاؤن کے خوشحال مڈل کلاس گھرانے سے تھا-
وہ غیر معمولی طور پر زہین تھے بچپن ہی سے شاعری کرنے لگے- انیس سال کی عمر میں وہ پاکستان ہجرت کر کے لاہور میں آباد ہو گۓ-انڈیا سے پاکستان ہجرت کر آنے والے دیگر لوگوں کے برعکس ساغر نے ہندوؤں، سکھوں کی چھوڑی ہوئی جاگیریں حاصل کرنے کے لئے حکومت سے کوئی درخواست نہ کی-
اس کی بجاۓ وہ سستے ہوٹلوں میں رہنے کو ترجیح دیتے- مختلف میگزینوں کے لئے نظمیں لکھ کر انہیں جو قلیل آمدنی ہوتی اسی سے اپنے کمرے کا وہ کرایہ ادا کرتے-
کئی پہلوؤں سے شکستہ ساغر ایک ایسے موڑ پر پنہنچ گۓ جہاں لاہور کی گھٹیا وہسکی بھی انہیں اس بدعنوان دنیا سے بیگانہ کرنے میں ناکام رہی اور تب ہی انہوں نے مارفین (morphine) دریافت کی-
وہ یہ زہر باقاعدگی کے ساتھ لاہور کے مختلف ہسپتالوں کے بدعنوان خاکروبوں سے خریدنے لگے-جلدی ہی سستے ہوٹلوں کے دروازے ان پر بند ہوگئے اور وہ لاہور کی سڑکوں پر آگئے.
جب دنیا اس باصلاحیت انسان کو بھول گئی، ساغر نے بھی دنیا کو ترک کردیا. پندرہ سال تک مارفین کے نشے، ڈپریشن اور آوارگی کی زندگی نے آخر اپنا رنگ دکھایا اور انیس سو چوہتر کے اوائل میں ایک دن ساغر لاہور کی سڑکوں پر مردہ پاۓ گۓ- وہ ٹھنڈ لگنے سے نیند کے دوران ہی فوت ہو گۓ- ان کی عمر صرف چھیالیس برس تھی-

وقت کی چـند ساعتیــــں ساغـر لوٹ آئیـــں تو کیا تماشا ہو
؎
ساغـر صـدیقی کے بارے میـں پڑھا تو ان کی زنـدگی کے بارے میـں بہت سی باتوں علم ہو تو سچ جانئے ۔۔۔۔۔ بہت دکھ ہوا جان کے ۔۔۔۔۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ جب جنرل ايوب صاحب پاکستان کے صدر تھے تو ان دنوں جنرل ايوب صاحب کو بھارت میں ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا جب مشاعرہ سٹارٹ ہوا تو ایک شاعر نے ایک درد بھری غزل سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
جب وہ شاعر شاعری کر کے فارغ ہوا تو جنرل صاحب اس شاعر کو کہتے ہیں کہ محترم جو غزل آپ نے سٹارٹ میں پڑھی بہت درد بھری غزل تھی یقینن کسی نے خون کے آنسووں سے لکھی ہو گی اور داد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پسند آئی ہے تو وہ شاعر بولے جناب عالی اس سے بڑی آپ کے لئے خوشخبری اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس غزل کا خالق، اس کو لکھنے والا لکھاری یعنی شاعر آپ کے ملک پاکستان کا ہے، جب جنرل صاحب نے یہ بات سنی تو آپ دھنگ رہ گے اتنا بڑا ہیرہ میرے ملک کے اندر اور مجھے پتہ ہی نہیں جب آپ نے اس شاعر سے اس غزل کے لکھاری یعنی شاعر کا نام پوچھا تو اس نے کہا جناب عالی اس درد بھرے شاعر کو ساغر صدیقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب جنرل صاحب پاکستان واپس آئے اور ساغر صدیقی صاحب کا پتہ کیا تو کسی نے بتایا کہ جناب عالی وہ لاہور داتا صاحب کے قریب رہتے ہیں تو جنرل صاحب نے اسی وقت اپنے چند خاص آدمیوں پہ مشتمل وفد تحائف کے ساتھ لاہور بھیجا اور ان کو کہا کہ ساغر صدیقی صاحب کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میرے پاس لاو اور کہنا کہ جنرل ايوب صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
جب وہ بھیجا ہوا وفد لاہور پہنچا تو انہوں نے اپنا تعارف نہ کرواتے ہوئے داتا دربار کے سامنے کھڑے چند لوگوں سے شاعر ساغر صدیقی کی رہائش گاہ کے متعلق پوچھا تو ان کھڑے چند لوگوں نے طنزیہ لہجوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا کہ کیسی رہائش؟؟ کون سا شاعر؟؟ ارے آپ اس چرسی اور بھنگی آدمی سے کیا توقع رکھتے ہیں اور پھر کھڑے ان چند لوگوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھیں سامنے پڑا ہے چرسیوں اور بھنگیوں کے جھرمٹ میں، جب وہ ايوب صاحب کا بھیجا ہوا وفد ساغر صدیقی صاحب کے پاس گیا اور ان کو ايوب صاحب کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی صاحب کہنے لگے جاو ان سے کہہ دو کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی اسی لئے ساغر کسی سے نہیں ملتا (جب ساغر صدیقی نے یہ بات کہی تو بشمول ساغر نشے میں مست وہاں موجود ہر نشئی ایک زور دار قہقہے کے ساتھ کچھ دیر کے لئے زندگی کے دیے غموں کو بھول گیا) بہرحال بےپناہ اسرار (ترلوں) کے باوجود وہ وفد واپس چلا گیا اور سارے احوال و حالات سے ايوب صاحب کو آگاہ کیا۔
کہتے ہیں کہ ايوب صاحب پھر خود ساغر صدیقی صاحب سے ملنے کے لئے لاہور آئے اور جب ان کا سامنا ساغر صدیقی صاحب سے ہوا تو ساغر صدیقی صاحب کی حالت زار دیکھ کر جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسووں کی اک نہ رکنے والی جھڑی لگ گئ اور پھر انہوں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غم سے چور اور نشے میں مست ساغر صدیقی سے جب مصافحہ کرنا چاہا تو ساغر صدیقی صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا
کہ

جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی،،،
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے

آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں



ساغر صدیقی کے آخری دن لاہور میں

لاہور میں قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ جولائی کے دوسرے ہفتے کی بات ہے۔ دوپہر میں ریڈیو اسٹیشن سے نکل کر لوہاری درواز ے پہنچا تو مسلم مسجد کے مینار کے نیچے مجھے ساغر کی ایک جھلک دکھائی دی۔ اُس نے اپنے نحیف و نزار جسم سے سیاہ چادر اُتار دی تھی اور ڈھیلا ڈھالا سفید کرتا پہنے چھڑی کے سہار ے کھڑا تھا۔
میں ٹریفک چیر کر اُس کی طرف بڑھا تو اُس نے دھونکی کی طرح چلتے ہوئے سانس کو روک کر مجھے دیکھا اور کہا " میں تمہں ہی یاد کر رہا تھا کہ تم بھی نظارا کر لیتے اور ہاں تم ضرور پوچھو گے کہ فقیر نے سیاہ چادر کیوں اُتار دی ہے اور سفید کُرتا کیوں پہن لیا ہے؟" اور چھڑی دکھا کر بولا۔ " سب کچھ بتاؤں گا پہلے میری صلیب دیکھو۔" یہ کہتے ہوئے پھر اُس کا دم اُکھڑنے لگا اور اُس نے کھانس کر بلغم تھوکی تو دم لے کر کفن نما سفید کُرتے کو چھو کر بولا۔
"مقتل کی طرف جانے کی گھڑیاں آ گئی ہیں اور میں نے کفنی پہن لی ہے۔" میں نے جلدی سے پوچھا " لیکن تم ہو کہاں؟" اُس نے اپنی بے نور ہوتی آنکھوں سے عینک اُتار کر پر ے پھینک دی اور بولا " اب کچھ دیکھنے کو دل نہیں چاہتا اور جا بھی کہاں سکتا ہوں۔ صرف چولا بدلنے گیا تھا۔ اب تو میں نے سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔"
ٹریفک کے شور میں ساغر کی آواز ڈوب ڈوب جاتی تھی۔ پھر وہ میر ے آخری سوال کا جواب دیے بغیر لوہاری کے اندر اپنے لرزیدہ جسم کو کھینچ کر لے گیا۔
رات کو مجھے دیر تک نیند نہ آئی اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے روشنی اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے۔ اُنہی دنوں طالب چشتی روتا ہوا ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُس نے گلوگیر آواز میں بتایا " بابا جی خون تھوک رہے ہیں اور پان گلی کے باہر منیر چھولیاں والے کے تھڑ ے کے نیچے پڑ ے ہیں۔
میں کام جاری نہ رکھ سکا اور طالب کے ساتھ لوہاری پہنچا تو ساغر وہاں نہیں تھا۔ ہم نے انار کلی، ایبک روڈ، آبکاری روڈ، پیسہ اخبار، شاہ عالمی اور سوتر منڈی میں ہر جگہ اُسے تلاش کیا لیکن ساغر کا کوئی نشان نہ ملا۔
دوسر ے دن میں ریڈیو اسٹیشن جانے کی بجائے صبح ہی صبح لوہاری چلا گیا اور اُسے مکتبہ جدید کے سامنے دیکھ کر میرا دم گھٹنے لگا۔ راہگیر اُسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور دکان دار اپنے اپنے گاہکوں میں مصروف تھے۔ حالانکہ سارا شہر اُسے خون تھوکتے ہوئے اس طرح دیکھ رہا تھا۔ جیسے لوگ روسن اکھاڑ ے میں جمع ہوں اور خونیں منظر دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہوں۔ جس میں ساغر کفن پہنے بوجھل سانسوں کے ساتھ نیم جان ہو کر اپنے آپ کو گھسیٹ رہا تھا۔ اُس کے کفن پر خون کے دھبے اس طرح جگمگا رہے تھے جیسے خنجر بکف جلاد اُس پر ٹوٹ پڑ ے ہوں۔
اُس نے بند ہوتی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہا تو اُس کے منہ سے خون نکل کر اُس کے ہونٹوں پر پھیل گیا، اُس نے سفید آستین سے پونچھ کر دوبارا کچھ کہنے کی آرزو کی تو خون کی لکیریں اُس کی کفنی پر بہنے لگیں۔ اپنے ہی خون میں شرابور ساغر صدیقی اس ہنستے بستے شہر میں کئی دنوں تک مقتل کا نظارا بنا رہا، اُس وقت ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم رائٹرز گلڈ کے انتخابات پر پانی کی طرح روپیہ بہایا جا رہا تھا اور بہت سار ے خوش حال ادیب اور شاعر رائٹرز گلڈ سے معذوروں کا وظیفہ بھی پا رہے تھےلیکن ساغر جس نے عمر بھر صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر حُسن و پیار اور رحم کے گیت تراشے تھے، اپنے خون آلود کُرتے میں لپٹا تیسر ے دن بے کسی کے ساتھ مر گیا تھا۔
اُسے کس نے کفن پہنایا اور کون لوگ دفن کرنے قبرستان گئے۔ یہ شکستِ ساغر کی آخری گمشدہ کڑی ہے اور جس طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس ماں کی گود میں آنکھ کھولی؟ کس باپ کی شفقت سے محروم ہوا؟ اور کس بھائی نے اُسے پیار سے پکارا؟ اس طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے قبر میں اُتارنے والے کون تھے؟
ساغر کو قبرستان میانی صاحب میں دفن ہوئے نو سال بیت گئے ہیں اور میں اُس کی زندگی کے بکھر ے بکھر ے مناظر ترتیب دیتے ہوئے اُس کی آخری آرام گاہ پر لگا ہوا ایک کتبہ پڑھ رہا ہوں۔ جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں۔
" " عاشـق کو سجـدہ کرنے کی مستــــی میـں اس بات سے کوئی سـرو کار نہیـں ہوتا کہ اس کی پگـڑی کہاں گـری ہے اور اس کا سـر محـبوب کے قـدمـوں پر کس انـداز سے گـرتا ہے "
لیکن اس کے کسـی مـداح نے اس کے کتبے پر یہ الفاظ لکھـواۓ ہیـں
" ساغـر کا قاتل یہ معاشـرہ ہے " اور نیچے ساغــر کا یہ شـعر درج ہے

" سنا ہے اب تلک واں سـونے والے چـونک اٹھتے ہیـں
" صـدا دیتے ہــــوۓ جـن رسـتوں سے ہـم گــــــزر آۓ

ساغر صدیقی کی ایک غزل

وقت کی عمر کیا بڑی ہوگی
اک ترے وصل کی گھڑی ہوگی

دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہوگی

کیا خبر تھی کہ نوک خنجر بھی
پھول کی ایک پنکھڑی ہوگی

زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہوگی

اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی

کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اڑی ہوگی

التجا کا ملال کیا کیجے
ان کے در پر کہیں پڑی ہوگی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی وی برسی ھے

دوستو! ساغر صدیقی کی فنی عبادتوں اور اُس کی پاکیزہ شخصیت کے خدوخال لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اُس کی زندگی میں جھانک کر دیکھنا میری ہمتوں سے باہر ہے۔ شکستِ ساغر کے عنوان سے اُس کی یادوں کو ترتیب دینا میری ایسی آرزو تھی جسے میں نے برسوں سے اپنے دل میں سنبھال سنبھال رکھا ہوا تھا۔
اور جب بھی میں اُس کے بار ے میں لکھنے کے لیے قلم اُٹھاتا ہوں تو موتیوں کے پھولوں کی خشبو میر ے احساس میں پھیل جاتی ہے اور پھر اچانک ہی موتیوں کے پھول خون کے دھبوں میں بدل جاتے ہیں۔
قبرستان میانی صاحب کے قریب سے گزرتے ہوئے مجھے اکثر وہ ساغر صدیقی یاد آ جاتا ہے جو برسوں پہلے مجھے اس شہر میں ملا تھا۔ گھنگھریالے بالوں، خوبصورت آنکھوں اور خوبصورت چہر ے والا ساغر صدیقی اور پھر ایک تباہ حال شاعر! جس کی میت پر کوئی اپنا آنسو بہانے والا نہ تھا۔ زندگی کی المناکیوں کا ایک ایسا عنوان بن گیا جس کو لکھنے کے لیے لہو کے چھینٹے اُڑانے پڑتے ہیں۔
شکستِ ساغر ایک فرد کا المیہ نہیں اس پور ے سماج کا المیہ ہے جس سے بے رحم سرمایہ دارانہ نظام نے احساسِ درد مندی چھین لیا ہوا ہے۔ اور افراد کو ایک دوسر ے سے اس طرح الگ کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ بدترین حالتِ بیگانگیِ ذات میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔
ساغر نے تمام زندگی دار و رسن پر گزاری۔ لیکن مرنے کے بعد اُس سے زندگی کوئی بھی نہ چھین سکا۔ اُس نے تو اپنے لہو سے فکر و فن کا سنگھار کیا تھا۔ فاقوں کی سیاہ راتوں اور بے چارگی میں ڈوبی ہوئی صبحوں میں بھی اُس نے سچے خیالوں اور پُر نور جذبوں کے فانوس روشن رکھے۔
اُس نے بے گھروں کے دکھ میں اپنا گھر بنانے کے خیال کو جھٹک دیا۔ ننگے زخمی پیروں کو دیکھ کر خود تپتی ہوئی سڑکوں پر ننگے پاؤں جلتا رہا۔ برہنہ جسموں کی بے وقعتی پر سیاہ پوشی کرنے والے کے حوصلے کا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ اور بھوکے معدوں کے غم میں فاقوں کے دوزخ میں جلنا اُسی کا کمال تھا۔
یہ وہ انسانی کمال ہے جو صرف آج کے بے برکت دور میں ساغر کی زندگی میں نظر آتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو صدیوں تک اُس سے اہلِ درد کی محبتوں کو زندہ رکھے گا
۔یونس ادیب صاحب کی کتاب " شکستِ ساغر" سے اقتباس۔
پسندیدہ ترین

یہ حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے
بڑے خلوص سے دل نذرِ جام کرتا ہے

ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ
.
ﺫﺭﺍ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺑﺖ ﺯﯾﺮ ﺩﺍﻣﺎﮞ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺌﮯ ﺷﻌﻠﮧ ﻓﮕﻦ ﭘﯽ ﮐﺮ ﮔﻠﺴﺘﺎﮞ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺗﺨﯿﻞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﻐﻤﮯ ﭼﻮﻧﮏ ﺍُﭨﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﺼﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺑﮩﺎﺭﺍﮞ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺩﻧﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﺎﻧﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﺮﺯﺍﮞ ﮨﯿﮟ
ﺳﮩﺎﺭﮮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺯﻟﻒ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺗﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻓﺴﺎﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﻤﺎﻧﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺴﺘﯽ ﮐﮯ
ﺑﻨﺎﻡ ﮨﻮﺵ ﻣﺪﮨﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﻋﻨﻮﺍﮞ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺳﻨﻮ! ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮﻗﯿﺮ ﮨﺴﺘﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮ
ﯾﮧ ﻭﮦ ﻣﻨﺰﻝ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﮧ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻓﻀﺎﺋﯿﮟ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺭﻣﺎﮞ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﻣﯿﮑﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﻻﺅ
ﮐﮧ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺟﻨﺒﺶِ ﺍﺑﺮﻭ ﺳﮯ ﺍﯾﻤﺎﮞ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺣﺸﺮ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ
ﻗﺪﻡ ﺳﺎﻏﺮ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﻮﺋﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ہمیں سے قوسِ قزح کو مِلی ہے رنگینیاں
ہمارے در پہ زمانہ قیام کرتا ہے

ہمارے چاک گریباں سے کھیلنے والو
ہمیں بہار کا سورج سلام کرتا ہے

یہ میکدہ ہے یہاں کی ہر ایک شے کا حضور
غم حیات بہت احترام کرتا ہے

فقیہہ شہر نے لگائی ہے تہمت ساغر پر
یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے
ساغر صدیقی

حشر میں کون گواہی میری دے گا ‘ ساغر ‘
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
ساغر صدیقی

ساغر صدیقی کی ایک زبردست غزل
...........................................
جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں
یاد بُھولے ہوئے یاروں کے کرم آتے ہیں

لوگ جس بزم میں آتے ہیں ستارے لے کر
ہم اسی بزم میں بادیدئہ نم آتے ہیں

میں وہ اِک رندِ خرابات ہُوں میخانے میں
میرے سجدے کے لیے ساغرِ جم آتے ہیں

اب مُلاقات میں وہ گرمی جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں

قُربِ ساقی کی وضاحت تو بڑی مشکل ہے
ایسے لمحے تھے جو تقدیر سے کم آتے ہیں

میں بھی جنت سے نکالا ہُوا اِک بُت ہی تو ہُوں
ذوقِ تخلیق تجھے کیسے ستم آتے ہیں

چشم ساغرؔ ہے عبادت کے تصوّر میں سدا
دل کے کعبے میں خیالوں کے صنم آتے ہیں
ساغر صدیقی

ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں

تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
تصور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں

قرار دین و دنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہیں
سہارے دیکھ کر زلف پریشاں لڑکھڑاتے ہیں

تری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
بنام ہوش مدہوشی کے عنواں لڑکھڑاتے ہیں

سنو! اے عشق میں توقیر ہستی ڈھونڈنے والو
یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں

تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں

کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
کہ جن کی جنبشِ ابرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں

یقیناً حشر کی تقریب کے لمحات آ پہنچے
قدم ساغر قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں​
ساغر صدیقی

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ