Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

29؍نومبر 1982 تسنیمؔ فاروقی بھوپالی کا یومِ وفات

  کون ہم سے چھین سکتا ہے محبت کا مزاج پتھروں میں رہ کے بھی یہ نقش تابندہ رہا 29؍نومبر 1982  تسنیمؔ فاروقی بھوپالی   کا یومِ وفات  نام مولوی ...

 


کون ہم سے چھین سکتا ہے محبت کا مزاج

پتھروں میں رہ کے بھی یہ نقش تابندہ رہا


29؍نومبر 1982

 تسنیمؔ فاروقی بھوپالی   کا یومِ وفات 

نام مولوی سلطان احمد اور تخلص  تنہائیؔ پھر تسنیمؔ کرلیا۔ 19؍نومبر 1915ء کو ابراہیم پورہ، بھوپال میں منشی عنایت حسین فاروقی کے یہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی۔    تسنیمؔ فاروقی 29؍نومبر 1982ء کو نور محل مسجد بھوپال میں انتقال کر گئے۔

‎#بحوالہ_موجِ_تسنیم


منتخب کلام 

 

صدیوں لہو سے دل کی حکایت لکھی گئی

میری  وفا  گئی  نہ  تری   بے   رخی   گئی


دل دے کے اس کو چھوٹ گئے اپنے آپ سے

اس سے چھٹے تو ہاتھ سے دنیا چلی گئی


یاد  آئی  اپنی  خانہ  خرابی   بہت   مجھے

دیوار  جب  بھی شہر میں کوئی چنی گئی


اس  کو  بھی  چھیڑ  چھاڑ  کا  انداز  آ گیا

دیکھا  مجھے  تو جان  کے انگڑائی لی گئی


ناخن کے چاند زلف کے بادل لبوں کے پھول

کس  اہتمام   سے  تجھے  تشکیل  دی  گئی


لمحے  کو  زندگی  کے  لیے  کم  نہ جانیے

لمحہ  گزر  گیا  تو  سمجھیے  صدی  گئی


تم کیا پیو گے چوم کے رکھ دو لبوں سے جام

تسنیمؔ  یہ  شراب  ہے  کتنوں  کو  پی  گئی

......

عکس  زنجیر  پہ  جاں  دینے  کے پہلو دوں گا

کچھ سزا تجھ کو بھی اے شاہد گیسو دوں گا


اپنے  گھر  سے  تجھے  جانے  نہیں دوں گا خالی

مجھ کو ہیرے نہیں حاصل ہیں تو جگنو دوں گا


زندگی  تجھ  سے  یہ  سمجھوتہ  کیا  ہے میں نے

بیڑیاں تو مجھے دے میں تجھے گھنگھرو دوں گا


مجھ  کو  دنیا  کی  تجارت  میں  یہی  ہاتھ  آیا

میں  نے  آنسو  ہی  کمائے  تجھے  آنسو  دوں  گا


میں  ہوں  دریا  مجھے  خدمت  میں لگے رہنا ہے

میں اگر  سوکھ  بھی  جاؤں  گا  تو بالو دوں گا


میں تو اک پیڑ ہوں چندن کا مجھے جسم نہ جان

تو مجھے قتل بھی کر دے گا تو خوشبو دوں گا


پہلے  کچھ  بانٹ  اصولوں  کے   بنا   لو  تسنیمؔ

جس  میں  کردار  تلیں  میں  وہ  ترازو  دوں گا

........

دل وہ جس کے آئینے میں عکس آئندہ رہا

تیرہ دامن منزلوں میں بھی درخشندہ رہا


آہ  آوارہ کی صورت  روح  گل پیاسی رہی

پھول خوشبو بن کے شبنم کے لئے زندہ رہا


ہائے  وہ  اک مفلس و بے خانما جو عمر بھر

سایۂ    دیوار    اہل    زر   کا   باشندہ   رہا


کون ہم سے چھین سکتا ہے محبت کا مزاج

پتھروں میں رہ کے بھی یہ نقش تابندہ رہا


زندگی سے یوں تو سمجھوتہ کیا سب نے مگر

جس نے جینے کی قسم کھائی وہی زندہ رہا


کائنات  نور  و  ظلمت  ہے   مرا   اپنا   وجود

روشنی  میں  بھی   مرا   سایہ   نمائندہ  رہا


جانے کیا کیا کہہ گیا اس سے مرا حسن سکوت

دیر تک وہ میرے چپ رہنے پہ شرمندہ رہا


حادثے تو اور بھی تسنیمؔ سے الجھے مگر

اک ترا غم تھا جو ہر عالم میں پایندہ رہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ