Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 4

  لاہور میں سفر کرتے ہوئے مجھے ٹریفک جام کا بھی خیال رکھنا ہوتا تھا ۔ ان چند سالوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بھی کشیدگی آئی تھی۔ ...

 




لاہور میں سفر کرتے ہوئے مجھے ٹریفک جام کا بھی خیال رکھنا ہوتا تھا ۔ ان چند سالوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بھی کشیدگی آئی تھی۔ اس لئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں ، خاص طور پر ایسے امریکوں کو کس قدر مشکل صورت حال کا سامنا تھا جن کا تعلق سفارت خانے سے تھایا وہ سفارت خانے کے لئے کام کرتے تھے ۔ یہاں ایسے واقعات بھی پیش آ چکے تھے کہ سفارتی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو چیک پوائنٹ پر روک کر بدسلوکی کی گئی ۔ ایسی صورت میں جب پولیس اہلکار ہمیں روکتے تو وہ فوراًہمیں گاڑی سے باہر آنے کے لئے دباؤ ڈالتے لیکن ہم ہر بار ان کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیتے تھے ۔ عراق میں ہونے والے کئی واقعات نے ہمیں باور کرا دیا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی وردی میں دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں اس لئے ہم کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لیتے تھے۔ایسی صورت میں پولیس ہماری گاڑی کو وہیں سڑک کنارے ٹھہرا لیتی اور ہم گھنٹے سے بھی زیادہ وقت ریجنل سکیورٹی آفیسر کے انتظار میں اس گاڑی میں بند رہ کر گزارتے تھے ۔


موٹرسائیکلوں ، سائیکلوں اور رکشوں سے بھری ہوئی تھی ۔ یہاں تین پہیوں پر مشتمل بہت سے موٹر سائیکل رکشے’’چنگ چی ‘‘ بھی تھے ۔ یہاں اس قدر موٹر سائیکلیں تھیں کہ مجھے لگ رہا تھا میری کار موٹر سائیکلوں کی ریس کے میدان میں ہے۔ ان کے درمیان ایک ایسا عجیب پاکستانی بھی تھا جس نے ایک موٹر سائیکل پر سات افراد کو بٹھایا ہوا تھا ۔یہاں بھی میں مسلسل اپنے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا ۔ بظاہر سب ٹھیک تھا اور میں صورت حال سے مکمل طور پر مطمئن تھا ۔ مجھے یہاں رکے دو منٹ ہوئے ہوں گے جب سیاہ رنگ کی ایک موٹر سائیکل میرے سامنے آ کر رکی ۔ اس پر دو نوجوان سوار تھے ۔ موٹر سائیکل کے ڈرائیور نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا ۔ اس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نام فیضان حیدر تھا ۔ اس کے پیچھے سوار دوسرے نوجوان کا نام محمد فہیم تھا جو ڈرائیور کے عین پیچھے بیٹھا ہوا تھا لیکن اس کے جسم کا رخ میری جانب تھا ۔ مجھے اس کے ہاتھ میں واضح طور پر پستول نظر آ رہا تھا ۔(جاری ہے)






کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ