Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 5

  عام طور پر پاکستانی شہری یوں اپنے پاس ہتھیار رکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انہیں کسی سے خطرہ ہو یا وہ کسی کے لئے خطرے کا باعث ...

 



عام طور پر پاکستانی شہری یوں اپنے پاس ہتھیار رکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انہیں کسی سے خطرہ ہو یا وہ کسی کے لئے خطرے کا باعث بنیں ۔اس کے باوجود اگر کوئی مصروف شاہراہ پر آپ پر پستول تانے کھڑا ہو تو پھر ایسی تمام توقعات ختم ہو جاتی ہیں اور وہ شخص آپ کے لئے سنگین خطرہ بن جاتا ہے ۔ عام طور پر ایسی صورت حال میں جب لوگوں کو موت سامنے نظر آّتی ہے تو ان کا ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور وہ بدحواس ہو جاتے ہیں ۔اس طرح وہ مزید خطرے میں گھر جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں اگر انہیں بھاگنے کا موقع ملے تو وہ فورا بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے دنیا کے بہترین ٹرینرز سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا تھا اور میں جانتا تھا کہ ایسے موقع پر مجھے کیا کرنا ہے۔

بدلے مجھے فی گھنٹہ دس ڈالر ملا کرتے تھے جس میں کبھی اضافہ بھی ہو جاتا تھا ۔ اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی ۔ میں مزدوری کے بدلے ملنے والا چیک لا کر اپنی والدہ کو دے دیتا تھا۔ اس ساری محنت کے باوجود مجھے یقین تھا کہ میں مزدوری کرنے کے لئے پیدا نہیں ہوا ہوں ۔ اسی لئے میں مقامی آرمڈ فورسز ریکروٹمنٹ دفتر گیا اور میں نے میرین کمانڈوز میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ریکروٹ آفیسر نے مجھے بتایا کہ صرف انفرنٹری میں پوسٹ خالی ہے ۔ میں اس وقت صرف اٹھارہ برس کا تھا جب ہوائی جہاز میں بیٹھ کر جارجیا گیا ۔ اس کے بعدایک ایسا دور شروع ہوا جو سخت محنت ، مشقت ، مہارت اور ٹرینگ سے عبارت تھا۔ کابل افغانستان (جون 2004 ) کے بعد میری منزل لاہور تھی۔ یہاں سے ہم دوبارہ لاہور مزنگ چوک کی طرف چلتے ہیں ۔ جب اس موٹر سائیکل سوار نے اپنی پستول کا رخ میری جانب کیا تو میں انتہائی مشکل صورت حال کا شکار ہو چکا تھا ۔اس گن اور میرے درمیان دس فٹ سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ اگر سڑک کھلی ہوتی تو میں ریس پر پاؤں رکھ کر گاڑی بھگا کر وہاں سے نکل جاتا لیکن بدقسمتی سے اس وقت مین ٹریفک میں پھنسا ہوا تھا لہذا گاڑی بھگا لیجانے کی آپشن موجود نہ تھی ۔ اگر میں مخصوص ایس یو وی گاڑی میں ہوتا تب بھی ان کی جانب مسکرا کر دیکھتا کیونکہ ان کی چلائی کوئی گولی گاڑی پر اثر انداز نہ ہوتی ، اس گاڑی کے شیشے بلٹ پروف تھے لیکن بدقسمتی سے میں عام سیڈان میں تھا ۔ شام کا ہلکا ہلکا اندھیرا میرے ارد گرد چھا رہا تھا ۔ اس موقع پر میرے پاس اپنے ٹرینرز کی دی گئی تربیت کے سوا کچھ نہ تھا ۔میری تربیت نے مجھے سکھایا تھا کہ اگر میری جان کا خطرہ ہو تو مجھے اس صورت میں کیا کرنا ہے لہذا میں نے وہی کیا جو مجھے سکھایا گیا تھا ۔ ان کے پستول کی نالی کا رخ میری جانب تھا ۔ میں نے ہاتھ کو غیر محسوس انداز مین حرکت دیتے ہوئے اپنی سیٹ بیلٹ کھول دی اور اپنی گن کی جانب ہاتھ بڑھایا ۔۔۔ (جاری ہے)







کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ