Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 7

  مجھے مارنے کے لئے محمد فہیم کو بھی صرف ایک گولی چلانی تھی ۔ اگر وہ اپنے کام میں ماہر ہوتا تو شاید سیکنڈز کے ہزارویں حصہ میں یہ کام کر سکتا...

 



مجھے مارنے کے لئے محمد فہیم کو بھی صرف ایک گولی چلانی تھی ۔ اگر وہ اپنے کام میں ماہر ہوتا تو شاید سیکنڈز کے ہزارویں حصہ میں یہ کام کر سکتا تھا لیکن وہ خود مارا گیا ۔ میں نے تصاویر بنانے کے بعد اپنا کیمرہ واپس گاڑی میں رکھ دیا ۔ اتنی دیر میں وہاں ٹریفک پولیس کا اہلکار بھی آ گیا۔ وہ حیرت سے نیچے گری ہوئی موٹر سائیکل اور لاشوں کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ میں نے اپنا سفارتی پاسپورٹ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا اور کہا کہ میں فوری طور پر امریکن قونصل خانہ جانا چاہتا ہوں لیکن اسے انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ دوسری جانب مجھے بھی پنجابی یا اردو نہیں آتی تھی ۔ اتنی دیر میں کئی لوگ میری کار کی جانب تیزی سے آنے لگے ۔ ان کا انداز جارحانہ ہرگز نہیں تھا لیکن میں پاکستان میں ہجوم کے رویے کو بہتر انداز سے سمجھ سکتا ہوں ۔ اس لئے جیسے ہی ٹریفک اہلکار نے رخ بدلا میں فوراً اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا ۔ میں نے ریڈیو (وائرلیس ) آن کیا ’’ بیس ۔۔۔ میں کراس بات کر رہا ہوں ‘‘ کراس میرا شناختی نام تھا ۔۔ بیس نے مجھے شناخت کر لیا اور پوچھا ’’ ہاں کراس ، بولو کیا بات ہے ؟‘‘


ایک بار پھر میرے قریب پہنچ گیا ۔ اس نے اردو میں وہاں موجود لوگوں کو چیخ چیخ کر صورت حال کے بارے میں بتانا شروع کر دیا ۔ میری کار کے گرد سیکڑوں لوگ اکٹھے ہو چکے تھے ۔ یہ ہجوم میری کار پر حملہ کر رہا تھا ۔ کسی نے پیچھے سے پہلا پتھر پھینکا اور میری کار کا پچھلا شیشہ بھی ٹوٹ گیا ۔ میرے پاس اب اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ میں اس خاتون کی گاڑی کو ایک طرف دھکیل کر اپنا راستہ بناؤں لیکن اس سے پہلے ہی ہجوم نے مجھے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا ۔ کسی نے میرے چہرے پر لات ماری ۔ میرے پاس اپنی پستول موجود تھی لیکن اس موقع پر میں اسے استعمال نہیں کر سکتا تھا ۔ میں اپنے ہاتھوں سے صورت حال کو کنٹرول کرنے اور خود کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ وقت پستول نکالنے کا نہیں تھا اور میں جانتا تھا کہ ہر کام کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے ۔ایک وجہ تو یہ تھی کہ اخلاقی اور جنگی نقطہ نظر سے یہ مناسب نہ تھا کہ میں پستول نکالتا ۔ دوسری وجہ یہ تھی ہجوم بہت زیادہ تھا اور وہ لوگ مجھ سے پستول چھین سکتے تھے ۔ اس وقت میری واحد امید وہ ایس یو وی گاڑی تھی جسے میری مدد کے لئے آنے والا ایگل چلا رہا تھا ۔ جیسے ہی مجھے پتا چلا کہ وہ لوگ بھی رش میں پھنس گئے ہیں تو میں نے ریڈیو پر ایک بار پھر انتہائی تشویش ناک پیغام بھیجا اور فوری مدد کا کہا ۔ ان حالات میں ایگل نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے اپنی گاڑی کا رخ سڑک کے مخالف سمت موڑ دیا ۔ وہاں ایک موٹر سائیکل سوار عبد الرحمن تھا جو فوری طور پر گاڑی کو نہ دیکھ سکا ۔ ایگل نے اسے بچانے کے لئے بریک لگائی لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔ عبد الرحمن کا خون سڑک پر دور دور تک بکھر چکا تھ

اس وقت صورت حال انتہائی گھمبیر ہو چکی تھی ۔ مشتعل ہجوم نے مجھے کار سے کھینچ کر باہر نکال لیا تھا ۔ اتنے میں وہاں ایک پولیس اہلکار بھی پہنچ گیا ۔ اسے دیکھ کر مجھے امید کی کرن نظر آنے لگی۔وہ پولیس اہلکار مجھے مشتعل لوگوں سے بچانے کی کوشش کرنے لگا ۔ لوگوں نے اسے اردو میں کچھ بتایا تو وہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرنے لگا ۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ اس شخص کے پاس ابھی بھی پستول موجود ہے ۔ یہ سن کر لوگ پیچھے ہٹنے لگے ۔ اب میرے ساتھ کار میں ایک پولیس اہلکار بھی تھا۔ اس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ہوا یہ کہ وہ بہانے سے میرا پستول لے کر رفو چکر ہو گیا۔اتنی دیر میں وہاں پنجاب رینجرز پہنچ گئی اور انہوں نے مجھے تھانہ انارکلی پہنچا دیا ۔ یہاں پولیس اہلکار محمد اورینجرز مجھے ایک کمرے میں لے گئے ۔ وہاں پولیس افسران نے مجھ سے پنجابی ، اردو اور انگریزی میں سوالات کرنے شروع کر دیئے ۔ میں نے اپنا بیج نکالا اور انہیں دکھاتے ہوئے کہا کہ میں امریکن قونصلیٹ جانا چاہتا ہوں۔ پولیس آفیسر کا لہجہ بلند ہو گیا لیکن اس کمرے کی صورت حال باہر انارکلی کی صورت حال سے پھر بھی بہتر تھی ۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا کہ مجھے پیاس لگی ہے ۔ ایک شخص نے مجھے کہا کہ پیسوں کے بنا پانی نہیں ملے گا ۔ انہوں نے میرے سامان کی تلاشی لی اور مجھے بتایا کہ یہاں میری موجودگی میرے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے لہذا وہ مجھے کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا انتظام کرتے ہیں ۔ انہوں نے میرے سر پر کمبل لپیٹا اور مجھے وہاں سے باہر لے آئے ۔ جب میرے سر سے کمبل ہٹایا گیا تو میں پاکستانی فوج کے ایک کیمپ میں تھا ۔ وہاں موجود آفیسر میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور کہا کہ تم نے ایک مشکل دن گزارہ ہے ۔ ایک اور کہنے لگا ’’ سر آپ توبہت اچھے شوٹر ہیں اور آپ کے پاس بہت اعلٰی معیار کی تربیت ہے ‘‘ میں نے اس کی بات سے اتفاق کیا ۔ اس کے بعد میں نے انہیں اس روز کی ساری داستان سنائی۔ اس رات میں محض پندہ منٹ ہی سو سکا ۔ اپنے تحفظ کے حوالے سے میں شدید تشویش کا شکار تھا ۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ جو گارڈ میری نگرانی پر متعین تھا اس نے اپنی پستول نکال کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی


جیسے ہی صبح ہوئی میں نے سکون کا سانس لیا ۔ گارڈ نے مجھے عدالت میں پیشی پر لیجانے کے لئے اٹھایا ۔ مجھے بتایا گیا کہ ناشتہ کے لئے مجھے میکڈونلڈ لیجایا جا رہا ہے ۔ ناشتہ کے دوران میں نے مقامی چینل پر اس واقعہ اور اپنے خلاف فوٹیج دیکھیں جن میں لوگ احتجاج کر رہے تھے اور مجھے سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ۔اس دوران میری نگرانی پر موجود لیفٹیننٹ نے مجھے بتایا کہ جن دو افراد کو میں نے گولی ماری تھی وہ ہلاک ہو گئے ہیں اور ان میں سے ایک نوجوان کی بیوی نے رات زہر کھا کر خودکشی کر لی ہے۔ اس نے کہا کہ ان تمام اموات کے ذمہ دار تم ہو ۔ مجھے لگا کہ لیفٹیننٹ میرا ردعمل دیکھنا چاہتا ہے لہذا میں نے کوئی جواب نہ دیا اور خود کو پُر اعتماد ظاہر کرنے لگا ۔ مجھے ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا ۔ کمرہ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور وہاں میں واحد امریکی تھا ۔ وہاں میری پیروی کرنے والا بھی کوئی نہ تھا ۔ یہاں تک کہ امریکن قونصلیٹ کی جانب سے بھی کوئی نمائندہ نہ آیا ۔ جج نے تفصیلات دریافت کیں تو ڈی ایس پی کاظمی نے مزنگ چونگی کا واقعہ بیان کیا ۔ یہ وہی سب تھا جو میں نے پولیس کو بیان میں بتایا تھا ۔ ڈی ایس پی کاظمی کے اس بیان سے مجھے حوصلہ ہوا کہ پولیس حقائق تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پراسیکیوٹر نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا میں اردو جانتا ہوں ۔ مجھے اردو کے محض چند الفاظ ہی آتے تھے لیکن پراسیکیوٹر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں اردو جانتا ہوں اور درحقیقت ایک جاسوس ہوں ۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جاسوس کو مقامی زبانوں سے آگہی ہوتی ہے ۔ یہی بات ظاہر کرنے کے لئے پراسیکیوٹر نے جج سے اردو میں گفتگو شروع کر دی جس پر میں نے اعتراض کیا کہ مجھے صرف انگریزی آتی ہے لہذا میں کمرہ عدالت کی کارروائی سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں نے جن لڑکوں کو گولی ماری تھی وہ پولیس ریکارڈ یافتہ تھے اور متعدد بار گرفتار ہو چکے تھے ۔ اس واقعہ کے بعد بھی ان کے قبضہ سے ناجائز اسلحہ اور چوری شدہ موبائل برآمد ہوئے تھے ۔ اس کے باوجود پراسیکیوٹر نے مجھے مجرم ثابت کرنے کی پوری کوشش کی اورجج نے مجھے چودہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ۔(جاری ہے )















کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ