Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 8

  پولیس نے مجھے عدالت سے کینال روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ سینٹر منتقل کر دیا ۔ یہاں درجنوں اہلکار حفاظت پر مامور تھے جو کلاشنکوف سے مسلح تھے ۔...

 



پولیس نے مجھے عدالت سے کینال روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ سینٹر منتقل کر دیا ۔ یہاں درجنوں اہلکار حفاظت پر مامور تھے جو کلاشنکوف سے مسلح تھے ۔مجھے یہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا ، کئی گھنٹوں بعد ایک پولیس اہلکار نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے’’ انٹرویو ‘‘کا لفظ بولا ۔ مجھے لگا کہ اب مجھ سے مزید تفتیش کی جائے گی ۔ وہ اہلکار مجھے اس کمرے سے نکال کر ایک بڑے کمرے میں لے گیا ۔ یہاں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ قونصلیٹ جنرل لاہور کی ایک ٹیم مجھ سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ اس ٹیم میں قونصلیٹ جنرل کارمیلا بھی شامل تھی۔ان سے میری پہلے بھی کئی بار ملاقات ہو چکی تھی ۔ قونصلیٹ کی ٹیم میں شامل میڈیکل ٹیم کے رکن نے میرا طبی معائنہ کیا ۔ اس دوران میں نے ٹیم پر واضح کر دیا کہ مجھ پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا ، کارمیلا نے مجھے کاپی اور پین تھماتے ہوئے کہا کہ اگر میں اپنی فیملی کو کوئی پیغام بھجوانا چاہتا ہوں تو اس کاپی پر لکھ دوں ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میری رہائی کے لئے بھی کوشش کی جا رہی ہے ۔

میرے لئے سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ تھی کہ قونصلیٹ جنرل کی ذاتی دلچسپی کے باوجود مجھے یہ علم نہ تھا کہ میں کب تک پولیس کی حراست میں رہوں گا ۔ قونصلیٹ جنرل کی جانب سے میری رہائی کے حوالے سے کوئی واضح تاریخ نہ ملنے پر مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ اب مجھے کئی برس تک قید رہنا پڑے گا ۔ کسی غیر ملک میں گرفتاری جس قسم کی مایوسی اور بے چارگی کے احساسات کو جنم دیتی ہے ، وہ مجھے محسوس ہونے لگی تھی۔قونصلیٹ کے جانے کے بعد میں اپنے بستر پر لیٹ گیا اور اگلے چوبیس گھنٹے سویا رہا۔ اس کے بعد ایک بار پھر اہلکار نے مجھے بتایا کہ قونصلیٹ کی ٹیم مجھ سے ملنے آئی ہے ۔ کارمیلا کی دی ہوئی کاپی پر میں نے اپنی بیوی اور بیٹے کے لئے اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ میں ان سے بہت پیار کرتا ہوں اور مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے اور یہ کہ حالات بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے ۔ میں نے پولیس اہلکاروں سے اپنی اس کاپی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ۔ میری تفتیشی ٹیم یہ نہیں جانتی تھی کہ میرا امریکی فوج کی کس برانچ سے تعلق ہے ۔ ایک کنٹریکٹر کے طور پر میری ذمہ داری دفتر خارجہ کے عملہ کی حفاظت کرنا تھی لیکن سوال یہ تھا کہ کیا یہ ذمہ داری مجھے ایک سفارت کار کا درجہ دیتی تھی؟۔ پاکستان جیسے ملک میں سازشوں کی کہانیاں گردش کرتی رہتی ہیں اور لوگوں میں منفی باتوں کا رحجان ہے ، ان حالات میں میرا ایک خاص ایجنسی سے تعلق کی داستانیں پولیس اہلکاروں کو میرے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتی تھیں۔ اپنی فیملی کے نام پیغام میں نے قونصلیٹ جنرل کے اسسٹنٹ شین کے ہاتھ تھمایا اوراس کا ہاتھ گرمجوشی سے دبایا ۔ ملاقات کے دوران کارمیلا نے مجھے صاف بتا دیا کہ مجھے رہائی دلانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں ۔ چودہ روزہ ریمانڈ میں پولیس مجھ سے کچھ بھی پوچھ سکتی ہے ۔ اس لئے میں ریمانڈ کے دوران پولیس کو بتاؤں کہ میری تعیناتی سفارت خانے میں ہوئی تھی اور یہ مطالبہ کروں کہ مجھے اسلام آباد میں موجود سفارتی مشن کے حوالے کیا جائے۔ چودہ دن کے بعد پولیس مجھ سے مزید تفتیش نہیں کر پائے گی۔ جسمانی ریمانڈ کے دوران مجھے دن میں دو بار چاول اور مرغی کا سالن کافی مقدار میں ملتا تھا جسے میں نے جان بوجھ کر کھانے سے انکار کرنا شروع کر دیا ۔ مجھے پینے کے لئے ایک لیٹر پانی کی بوتل ملتی تھی جسے میں ایک دو گھنٹے میں ہی خالی کر دیتا اور مزید پانی طلب کرتا تھا۔ اس پر گارڈز نے مجھے کئی بوتلیں اکٹھی دینی شروع کر دیں ۔ پولیس نے پہلے دن ہی میری گھڑی ، کیمرہ اور موبائل اپنے قبضے میں لے لئے تھے ۔ میرے کمرے میں چوبیس گھنٹے بلب روشن رکھے جاتے تھے ۔ اس کے علاوہ وہ کسی بھی وقت پوچھ گچھ کے لئے کمرے میں آ سکتے تھے اور کوئی بھی سوال پوچھ لیتے تھے ۔ پاکستانی پولیس کے بارے میں جو معلومات مجھے حاصل تھیں ان کی بنیاد پر مجھے یقین تھا کہ وہ مہارت کے فقدان کی وجہ سے مجھ سے کچھ بھی نہیں اگلوا سکیں گے ۔لاہور میں محض ایک درجن سے زائد تفتیشی پولیس آفیسر ہیں جن میں سے ہر ایک کو ہر ماہ لگ بھگ ڈھائی سو کیسز نمٹانے ہوتے ہیں ۔ کچھ تفتیشی آفیسر اچھی طبیعت کے مالک تھے جبکہ بعض دوران تفتیش موضوع سے ہٹ کرفضول سوالات پوچھنے لگتے تھے مثال کے طور پر کھانا ٹھیک مل رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مجھے مزنگ چونگی کے واقعہ کی تفصیلات بھی متعدد بار کئی پولیس افسروں سے سنانی پڑیں ۔ انہی میں ایک پولیس آفیسر طارق اپنی خوش مزاجی اور شستہ انگریزی کی وجہ سے مجھے بہت پسند تھا ۔ ایک موقع پر طارق نے کہا کہ اس کا ایک بھائی امریکا کی ریاست جارجیا میں پرانی گاڑیوں کی مرمت کرتا ہے ۔ اس سے مجھے لگا کہ طارق مجھ سے تعلق جوڑ کر دوبارہ سے مزنگ چونگی والے واقعہ کی تفصیلات پوچھنے لگے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس نے مجھ سے کبھی نہ پوچھا کہ میں لاہور کیوں آیا ہوں اور کیا کر رہا تھا ۔ وہ صرف امریکی فلموں ، طرز زندگی اور امریکی ثقافت پر باتیں کرنا پسند کرتا تھا ۔


ایک اور پولیس افسر نے بھی مجھ سے تفتیش کی ۔ وہ بے تکلفی سے کمرے میں بیٹھ گیا اور اس نے مجھے بتایا کہ اسے امریکی ایف بی آئی نے تربیت دی ہے ۔ وہ سفید پینٹ شرٹ اور ٹائی میں پولیس افسر کی بجائے بینکر لگتا تھا ۔ اس کا انداز عام پولیس والوں سے بہت مختلف تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کبھی لاہور میں ڈی ایچ اے گیا ہوں۔ میں نے اسے جواب دیتے ہوئے بہت محتاط رویہ اختیار کیا اور کہا کہ ایک آدھ بار میرا اس علاقہ میں جانا ہوا ہے ۔ اس کے بعد اس نے مزنگ چونگی والے واقعہ پر گفتگو شروع کر دی ۔ میں نے اسے کہا کہ میں اس سارے واقعہ کی تفصیل متعدد بار زبانی بتا چکا ہوں اور اپنا بیان بھی لکھ کر دے چکا ہوں اوراب اس سلسلے میں مزید کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا ۔ وہ چھ گھنٹے کمرے میں رہا ۔ اس دوران اس نے مجھے دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے ہوئے دیکھا لیکن بالآخر وہ بھی مایوس ہو کر کمرے سے باہر چلا گیا ۔

پولیس ٹریننگ کالج میں چھٹا دن پولیس کی اس پوچھ گچھ کے دوران مجھے کئی عدالتوں میں پیش کیا گیا ۔ ایک عدالت میں مجھے غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنے کے الزام میں تو دوسری عدالت میں مزنگ چونگی میں دو بے گناہ افراد کے قتل کے کیس میں پیش کیا گیا۔ان دونوں عدالتوں کا ماحول ایک جیسا تھا یعنی چھوٹے تنگ اور غیر ہوادار کمرے تھے جو کسی صورت عدالت کا کمرہ محسوس نہیں ہوتے تھے ۔ اس کے باوجود وہاں بہت سارے لوگ اپنی جگہ بنا لیتے تھے ۔ اس کیس کے دوران میں نے پراسیکیوٹرکے بیان میں اہم تبدیلی محسوس کی ۔ پہلی پیشی پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر ڈیوس نے دو ایسے افراد کو گولی ماری جو اسے مارنا چاہتے تھے ۔ دونوں کے پاس اسلحہ اور گولیاں موجود تھیں ۔ اگلی پیشی پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو کہا کہ مسٹر ڈیوس نے دو ایسے افراد کو گولی ماری جو اسے مارنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ درست ہے کہ دونوں کے پاس اسلحہ موجود تھا لیکن ان کے پستول کے چیمبر میں کوئی گولی نہیں تھی ۔ اس غلط بیانی کی وجہ پولیس افسروں کی جانب سے دیا گیا مواد تھا ۔ اس کے بعد ایک پیشی میں پراسیکیوٹر نے کہا کہ جنہیں میں نے گولیاں ماریں وہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ تھے جو ڈی ایچ اے میں کسی کے ساتھ میری ملاقات کے بعد میرے پیچھے لگے تھے ۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ایک پولیس افسر نے دوران تفتیش مجھے یہ کیوں کہا تھا کہ وہ ایف بی آئی کا تربیت یافتہ ہے اور اس نے مجھ سے ڈی ایچ اے کے بارے میں سوال کیوں کیا تھا ۔ اس سے اگلی پیشی پر پراسیکیوٹر صاحب نے دعویٰ کیا کہ دونوں مقتولین غیر مسلح تھے ۔ پراسیکیوٹر کے اس دعوی کو غلط ثابت کرنا اب میرے لئے بہت مشکل تھا کیونکہ میرا وہ کیمرہ پولیس کے پاس تھا جس سے میں نے اس حادثہ کے بعد دونوں مقتولین کی تصاویر بنائیں تھیں ۔ ان تصاویر میں مقتول فہیم کے ہاتھ میں پستول واضح طور پر نظر آ رہا تھا ۔ مجھے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ ہر بار پراسیکیوٹر کے بیان بدل لینے کے باوجود جج نے اسے ٹوکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔پاکستان کے کمزور عدالتی نظام کا ذکر تفصیل سے یو ایس ایڈ کی 2008 کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے ۔ اس کیس کی پانچویں پیشی پر میں نے قونصلیٹ جنرل کارمیلا سے مایوسی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا مجھے وکیل مل سکتا ہے ۔ اس سے اگلی پیشی پر مجھے معاون مل گیا ۔ اس کا تعلق امریکن قونصلیٹ سے تھا اور وہ اچھی اردو بول سکتا تھا ۔ اسی دوران مجھے نیا سفارتی پاسورٹ اور ویزہ بھی جاری کر دیا گیا تھا جس کی معیاد 2016 تک تھی ۔امریکی حکومت کے نمائندے یا کنٹریکٹر کے لئے پاکستانی ویزے کی درخواست کی منظوری پاکستانی سفیر دیتا ہے ۔ پاکستانی حکام کے نرم موقف کی وجہ سے پاکستانی سفیر حسین حقانی بڑی فراخ دلی کے ساتھ امریکی حکام کو ویزے جاری کیا کرتے تھے۔انہوں نے ہی میرے اور دیگر کنٹریکٹرز کے ویزوں کی منظوری دی تھی۔ گمنام امریکی اہلکاروں کی اس بڑھتی تعداد پر پاکستانی حکام نالاں تھے لہذا انہوں نے امریکا کو حراساں کرنے کے لئے میرا کیس اچھالنا شروع کر دیا ۔ سب سے زیادہ موقع پرستی کا مظاہرہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا ۔ انہوں نے حکومت کے اصرار پر مجھے سفارتی استثنی دینے سے انکار کرتے ہوئے بیس جنوری کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان آنے والاایسا امریکی جاسوس قرار دیا جاتا ہے جس نے لاہور میں دو افراد کودن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کیا اور پھر گرفتار ہوا ۔ اس پر قتل کا مقدمہ چلا اور قریب تھا کہ اسے سزائے موت سنا دی جاتی لیکن حالات نے ڈرامائی موڑ لے لیا ۔ اچانک مقتول کے ورثا دیت پر راضی ہو گئے ۔ کروڑوں روپے دیت کی رقم کس نے ادا کی اس پر متضاد رائے ہے کیونکہ کوئی بھی اس رقم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوا ۔ بہرحال یہ شخص جسے کبھی سفارتی عملہ کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی تو کبھی اسے بلیک واٹر کے قاتل کورڈ کا حصہ قرار دیا گیا، باآسانی پاکستان سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ وہاں اس نے اس ساری صورت حال پر ’’ کنٹریکٹر ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ڈیلی پاکستان آن لائن میں قسط وار پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادارہ یا قاری کا اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کتاب پڑھتے وقت یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جو خود کو کچھ بھی کہے لیکن پاکستان کے عوامی حلقوں میں اسے جاسوس قرار دیا جاتا ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے عزائم اور اسکے ’’مالکوں‘‘ کی فطرت اور طریقہ کار کو سامنے لانے کی غرض سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنا قومی مفاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب میں جو ’’انکشافات‘‘ کئے گئے ہیں انہوں نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے ۔ کتاب کا ترجمہ و تلخیص نامورتحقیقاتی صحافی سید بدر سعید نے کیاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں چھپنے والی پہلی اردو تحقیقاتی رپورٹ سید بدر سعید نے ہی لکھی تھی ۔ مصنف اس سے قبل ’’خودکش بمبار کے تعاقب میں ‘‘ اور ’’صحافت کی مختصر تاریخ . قوانین و ضابطہ اخلاق ‘‘ جیسی تحقیقاتی کتب لکھ چکے ہیں ۔ انہیں دہشت گردی ، طالبانائزیشن اور انٹیلی جنس امور پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے ۔وہ پاکستان کے اہم صحافتی اداروں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں ۔


کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ