اور مجھے امریکہ کے حوالے کردیا گیا اور مجھے امریکہ کے حوالے کردیا گیا ’’خدا حافظ‘‘ کے الفاظ سننے کے بعد میں نے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں ج...
اور مجھے امریکہ کے حوالے کردیا گیا
اور مجھے امریکہ کے حوالے کردیا گیا ’’خدا حافظ‘‘ کے الفاظ سننے کے بعد میں نے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں جو انگریزی میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر اچانک وہ لوگ ریچھوں کی طرح مجھ پر حملہ آور ہوگئے اور مجھ پر لاتوں، گھونسوں اور مکوں کی بارش کرنے لگے۔ یہ سب اتنا کچھ اچانک تھا کہ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میرے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کی گئی، کبھی اوندھے مہ لٹا دیا جاتا، کبھی کھڑا کرکے دھکا دے دیا جاتا، میرے کپڑے چاقوؤں کی مدد سے پھاڑ دیئے گئے اس دوران میری آنکھوں پر بندھی پتی اتر گئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک طرف پاکستانی فوجی قطار بنائے کھڑے تھے جبکہ ساتھ ہی آفیسرز کی گاڑیاں تھیں جن میں ایک پر جھنڈا لگا ہوا تھا۔
تماشہ دیکھتے رہے: امریکیوں نے مجھے مارا پیٹا اور بے لباس کر دیا مگر اسلام کے یہ محافظ’’میرے سابقہ دوست‘‘ یہ تماشہ دیکھتے رہے اور ان کی زبان پر لگے تالے میرے لیے نا قابل فراموش ہیں۔انہوں نے میری حوالگی کے سارے تقاضے پورے کر رکھے تھے۔ یہ وہ لمحات تھے جن کو میں قبر میں بھی نہ بھول سکوں گا۔ میں کوئی قاتل، چور، ڈاکو یا قانون کا مجرم نہیں تھا (بلکہ ایک مسلمان ملک کا باقاعدہ سفیر تھا) مجھے بغیر کسی جرم کے امریکا کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ وہاں موجود آفیسرز کم از کم اتنا تو کہہ سکتے تھے (مگر غلام اتنا کہنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے) کہ یہ ہمارے مہمان ہیں، ہماری موجودگی میں ان کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے۔ وحشی، متعصب اور بے رحم امریکی فوجیوں نے ایسی حالت میں مجھے زمین پر پٹخ دیا کہ میرا جسم ننگا تھا، (ننگی اور مادر پدر آزاد تہذیب کے پروردہ یافتوں کے لیے ایک مسلمان کا برہنہ ہونا کیا حیثیت رکھتا ہے؟) پھر مجھے ہیلی کاپٹر میں دھکیلا جہاں میرے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے کس کے باندھ دیئے گئے اور آنکھوں پر پٹی بھی دوبارہ باندھی گئی۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا میرے چہرے کو سیاہ تھیلے سے بھی ڈھانپ دیا۔ پھر میرے ارد گرد سر سے پاؤں تک رسی باندھی اور ہیلی کاپٹر کے وسط میں زنجیر سے باندھ دیا۔ اے عزارئیل! کہاں ہو؟ ہیلی کاپٹر فضا میں بلند ہوگیا۔ میں جب حرکت کی کوشش کرتا تو زور دار لات پڑتی۔ مجھے ایسا لگا کہ آنے والے چند لمحوں میں میری روح اور جسم کا رشتہ ختم ہونے والا ہے۔مجھے یہ یاد نہیں کہ میں کتنی دیر تک اس کرب میں مبتلا رہا۔ آخر کار ہیلی کاپٹ ایک جگہ اتر گیا۔ وحشی امریکی درندوں نے ہیلی کاپٹر سے گھسیٹتے ہوئے مجھے نیچے پھینک دیا۔ جس کے ساتھ ہی وہاں پہلے سے موجود دوسرے امریکی بھی مجھ پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگے اور میرا وہ حال کیا جو بیان سے باہر ہے۔ الٹا لٹا کر میرے اوپر چار پانچ افراد بیٹھ گئے اور ایسے باتیں کرنے لگے جیسے کسی اجلا س میں بیٹھے ہوں۔ میری سانس نہیں نکل رہی تھی۔ بے اختیار دل ہی دل میں حضرت عزرائیل کو پکار رہا تھا کہ اے عزارئیل! کہاں ہو؟؟؟؟ بحری بیڑے میں: مجھے اس جگہ دو گھنٹے اسی کرب میں رکھا گیا پھر دوسرے ہیلی کاپٹر میں سوار کرا کر ایک آہنی کرسی سے باندھ دیا گیا۔ اب کی بار مجھے مار نہیں پڑ رہی تھی۔25/20منٹ بعد ہیلی کاپٹر نیچے اترا۔ مجھے اندر ہی کھڑا کیا گیا۔ یہاں متعدد جہازوں کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ مجھے نیچے اتار کر چہرے سے نقاب ہٹا دیا گیا اور آنکھوں کی پٹی بھی اتار دی گئی۔ دیکھا کہ چند امریکی فوجی کھڑے ہیں۔ بائیں جانب ایک قید خانہ نظر آیا جس میں چند قیدیوں کو باندھا گیا تھا۔ اسی جگہ مجھے بھی ڈال دیاگیا یہاں موجود ایک چھوٹے سے واش روم میں مجھے منہ ہاتھ دھونے کو کہا گیا مگر میرے ہاتھوں میں سکت نہیں تھی (کہ میں اپنے ہاتھ دھو لیتا) میں نے اتنا کیا کہ خود کو گیلا کر دیا پھر مجھے ایک چادر دے کر ایسے کمرے میں لے جایا گیا جو دو میٹر لمبا اور ایک میٹر اونچا تھا۔ رفع حاجت کی جگہ بھی اتنی سی جگہ میں تھی۔ کمرے کی دیواریں آہنی تھیں اوپر سے مضبوط آہنی جالیاں بھی لگائی گئی تھیں۔مجھے سونے کا کہا گیا مگر نہ بستر تھا نہ تکیہ حیران تھا کہ میں کہاں لایا گیا ہوں اور مزید کس سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا؟ ایک فوجی کمرے کے سامنے کھڑا تھا خوب سوچ بچار کے بعد مجھے علم ہو اکہ یہ ایک بالکل بند جگہ تھی تین اور چھوٹے کمرے تھے اور ایک کلینک ، ایک میڈیکل اسٹور تھا جس کے ساتھ ایک کمپوڈر ہمیشہ بیٹھا رہتا تھا ۔اس کمرے کا ایک دروازہ تھا اور پانی کی بھی کمی تھی یہاں پہنچ کر مجھے محسوس ہوا کہ شاید انڈر گراؤنڈ جیل ہو جنہیں افغانستان کی جنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔ صبح و شام نقل و حرکت اور بھاری مشینری کی آوازوں سے بہت جلد میرے احساسات یقینات میں بدل گئے اور یہ واقعی ایک انڈر گراؤنڈ جیل تھی۔ جنہیں افغانستان کی جنگ کے لیے مختص کیا گیا تھا اور ہم اس کے نیچے چھٹے بلاک میں تھے۔ دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ:
اس کے علاوہ میں بہت زیادہ ڈر گیا تھا اور بہت کم پلکوں کو حرکت دیتا تھا اور زبان تالو کے ساتھ چپک گئی لیکن میں سوچتا رہا بائیں جناب ایک بڑا کمرہ دکھائی دے رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس میں بھی قیدی ہیں۔ میں نے یہ سوچا کہ شاید بعض طالبان بھائی بھی یہاں ہوں۔ صبح کھانے پر تمام قیدی بھائیوں کو معلوم ہوا کہ ان کا ایک اور بھائی بھی یہاں قیدی بن کر آیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بات نہیں کر سکتے تھے۔ البتہ ہم روٹی کی آڑ میں چپکے چپکے چوری سے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے ۔دو دن کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ملا فاضل محمد، نور اللہ نوری صاحب، برہان وثیق صاحب اور غلام روحانی بھی یہاں قید ہیں لیکن پھر بھی ہم آپس میں گفتگو نہ کر سکے ۔یہ تمام طالبان رہنما تھے۔
بتاؤملا عمر کہاں ہیں؟ صبح مجھے ہتھکڑی پہنا کر ایک دوسرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں تفتیش کا پہلا دور شروع ہوا۔ میری انگلیوں کے نشانات لیے گے، فوٹو گرافی ہوئی اور بائیو گرافی لکھی گئی۔ اس کے علاوہ کوئی سوال جواب کیے بغیر واپس اسی قید خانے میں لایا گیا جہاں رات کا کھانا پلاسٹک کے برتنوں میں پڑا ملا۔ ہلکا پھلکا کھانے کے بعد برتن فوجیوں کو واپس کر دیے جس کے بعد سونے کا ارادہ باندھا۔ ابھی آنکھیں بند ہی ہو رہی تھیں کہ فوجیوں کے شور سے جاگ گیا۔ مجھے پکڑ کر دوبارہ تفتیش والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں پہلی دفعہ مجھ سے اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے بارے میں سوالات پوچھے گئے کہ وہ کہاں تھے؟ کدھر چلے گئے؟ ابھی کہاں ہوں گے؟ اور کیسے ہوں گے؟ عام طور پر طالبان کے رہنماؤں کے متعلق پوچھا گیا کہ ان کا کیا بنا؟ وہ کدھر ہیں؟ اور کیسی حالت میں ہیں؟ وہ کہاں چلے گئے؟ ایک سوال وہ بار بار پوچھتے رہے کہ نائن الیون کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ آپ کو کوئی معلومات ہیں؟ یا آپ نے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ البتہ یہ وہ مقصودی سوالات تھے کہ پہلی بار وہ اس کے جوابات کے متلاشی تھے اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ علم بھی تھا کہ اس واقعے سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا اور نہ ہی مجھے اس کا علم ہے۔ا بھی تک کسی کو بھی اس کا سراغ نہ مل سکا۔ ہزاروں لوگ بے عزت کیے گئے، ہزاروں مسلمان شہید ہوئے، ہزاروں مسلمان قیدی بنائے گئے اور ابھی تک قتل و غارت گری اور قید و بند کاسلسلہ جاری ہے۔ ابھی تک اس کے کوئی شواہد عدالت کو پیش کیے گئے اور نہ ہی امریکی قوم کو اطمینان بخش جواب دیا گیا(جب شواہد اور ثبوت ہی نہیں تھے کہاں سے عدالت میں پیش کرتے اور کیسے اپنے عوام کو اس پر مطمئن کرتے؟ بلکہ آہستہ آہستہ اس صہیونی سازش کی حقیقت کھلتی چلی گئی اور پس پردہ سازش سے پردہ اٹھا) یکطرفہ طور پر بغیر کسی دلیل و شواہد کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور بغیر کسی قانون و قاعدہ کے ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھاہے ۔
(نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
فولادی پنجہ: دہشت گردی کا لفظ امریکیوں کے لیے ا یک فولادی پنجہ ہے جسے چاہتے ہیں وہ اس سے اس کا سر دے مارتے ہیں اور ان کی گرفتاری اور رہائی عمل میں لاتے اور ان کا یہ مکرہ و فریب دوسرے تمام ملکوں پر آشکار ہو چکا ہے۔ چار پانچ دن تک یومیہ تفتیش دو مرتبہ مکرر ہوتی رہی اور وہی پرانے سوالات پوچھے جاتے رہے لیکن میرے لیے یہاں اچھی بات یہ تھی کہ یہاں کوئی سختی، مار پیٹ اور سزا نہ تھی لیکن طبعی طور پر ایسے تنگ مکان میں زندہ رہنے کے باوجود زندگی بڑی مشکل سے بسر ہوتی ہے۔ ’’باتیں مت کرو اور ہلو مت‘‘ پانچ چھ دن کے بعد صبح ناشتے پر مجھے خاکی رنگ کا یونیفارم دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ پرانے یونیفارم کی جگہ اسے پہن لو، یونیفارم تبدیل کرنے کے فوراً بعد منتقلی کا کام شروع ہوگیا۔ تمام قیدیوں کے ہاتھوں کو پلاسٹک کی رسی سے باندھا گیا اور ان کے سروں پر تھیلے چڑھائے گئے۔ تھیلوں کے تسموں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھا گیا۔ آخری باری میری تھی۔ میرے ہاتھوں کو بھی رسیوں سے باندھا گیا، سر پر تھیلی چڑھائی گئی اور تہہ خانے سے اوپر لا کر ان قیدی بھائیوں کے ساتھ بٹھایا گیا جنہیں مجھ سے پہلے لایا گیا تھا۔ قیدیوں میں پانچ افغان تھے جن کے نام میں نے پہلے ذکر کر دیئے۔دو عرب، اور ایک امریکی مسلمان تھا اور نواں میں تھا۔ یاد رہے کہ میرے اور ان کے یونیفارم میں فرق تھا۔ میرا یونیفارم خاکی اور ان کا آسمانی کلر کا تھا۔ کافی دیر تک ہمیں وہاں اس بند حالت میں بٹھایا گیا ۔سخت رسی سے باندھنے اور دم گھنٹے کی شکایت کی وجہ سے ساتھیوں کی مسلسل چیخیں نکل رہی تھیں۔ کوئی قیدی پانی مانگ رہا تھا تو کوئی ہاتھوں کے درد کی شکایت کر رہا تھا۔ کوئی چیختا تھا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے لیکن انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی جو ہماری آوازوں کو سنتے اور ہمیں درد و قید سے چھڑا کر پانی پلاتے اور سروں سے تھیلے ہٹا کر ہمیں سانس لینے دیا جاتا۔ خالی فوجیوں کی آوازیں اور نعرے تھے جو ہمیں انگریزی زبان میں لتاڑتے تھے اور کہتے تھے (Shut up and Stop Movement)(باتیں مت کرو اور ہلو مت)
یہاں مسلسل ہیلی کاپٹروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ دو تین گھنٹے ہمیں یہاں رکھا گیا اور پھر ہیلی کاپٹروں کے اندر ڈال کر باندھا گیا۔ تقریبا 25منٹ سفر کے بعد ہمیں ایک اور جگہ منتقل کیا گیا ہمیں ہیلی کاپٹر سے نیچے زمین پر گرایا گیا اور وہاں موجود فوجیوں نے ہمارے جسموں کے ساتھ فٹ بال کھیلنا شروع کر دیا۔ لاتیں اور گھونسے: مختلف فوجی آتے رہے اور ہمیں لاتوں اور گھونسوں سے سخت مارتے رہے ۔یہاں تک کہ فوجی اپنے بوٹوں سے ہماری انگلیاں زمین کے ساتھ روندتے رہے اور ہماری چیخیں بلند ہوتی رہیں ۔اسی اثناء میں ایک فوجی مجھے تلاش کرنے کے سلسلے میں میرے پاس آیا، میرے سر سے تھیلا اٹھایا اور پھر دوبارہ پہنا کر شناخت کے بعد چپ چاپ چلا گیا ۔میں نے اس وقت اپنے دوسرے قیدی بھائیوں کو دیکھا کہ وہ سخت تکلیف میں تھے۔امریکی فوجی ان کے جسموں سے لاتوں اور گھونسوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور ان کی چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔ یہاں ہم اتنے سخت عذاب میں تھے کہ وضو اور نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اشارے سے نماز پڑھ سکتے تھے۔ اس لیے کہ ہماری تھوڑی سی حرکت پر وہ ہم پر لاتوں کی بارش کرتے۔ ایک لمحہ لیے ہمیں چھوٹے پیشاب کے لیے اٹھایا گیا جس سے ہماری طبیعت قدرے سنبھل گئی۔کئی بار ہیلی کاپٹر لینڈنگ کرتے رہے اور بار بار پرواز کرتے رہے بالآخر رات کے شروع ہوتے ہی ایک ہیلی کاپٹر ہمارے بہت قریب آیا اور ہمیں اس کے اندر ڈال دیا گیا۔ پل صراط اور حالت نزع: ہیلی کاپٹر کی منتقلی پل صراط کا پل اور حالت نزع کے برابر ہوتا تھا ۔اتنا سخت عذاب تھا کہ جسے میں آج بھی تصور نہیں کر سکتا۔ گوانتاناموبے میں ہمیں ہمیشہ اپنی منتقلی کی فکر ہوتی تھی کہ وہ خدانخواستہ دوسری جگہ منتقل کس طرح ہوگی۔ ہمیں ہیلی کاپٹر کے اندر ہاتھ پاؤں سے مضبوط باندھا گیا ۔اس طرح کے ڈبل پٹے ہمارے سینے اور رانوں کے اوپر لپیٹ کر جہاز کے دوسرے حصوں سے مضبوط باندھ دیا گیا۔ ایسے میں نیم لیٹے اور نیم بیٹھے ہوتے تھے نہ صحیح طرح لیٹ سکتے تھے اور نہ ہی صحیح طرح بیٹھ سکتے تھے۔ بگرام ائیرپورٹ: ریڑھ کی ہڈی میں شدید تکلیف ہو رہی تھی اور سانس گھٹ رہا تھا لیکن صبر کے سوا کوئی راستہ نہ تھا ۔ہم ایک دوسرے کے ساتھ سہارا لینے لگ جاتے تو فوجی وحشی بوٹ سے سخت مارتے، ساتھیوں کو پیشاب اور پیاس کے تقاضے کے باوجود اجازت نہیں ملتی تھی اور ترجمان بھی نہ تھا یا پھر وہ بھی فوجیوں کے ساتھ ملا ہوتا تھا۔ راستے میں دو جگہ ہیلی کاپٹر اترا اور پھر اڑان بھری کافی دیر بعد ہیلی کاپٹر ایک جگہ اترا اور یہ بگرام ائیرپورٹ تھا۔ ’’امریکا عدل و انصاف کا گھر ہے‘‘ مجھے فوجیوں نے بڑی بے دردی کے ساتھ نیچے پکی زمین پر پھینکا۔ چند فوجی یہ نعرے لگا رہے تھے (This is the big one)یہ ان کا بڑا ہے۔ پھر انہوں نے مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش شروع کر دی دی۔ میں نے تو کلاشنکوف کے بٹ بھی محسوس کئے میرے جسم سے کپڑے الگ ہوگئے خالی سر پر تھیلا اور ہاتھ پاؤں میں بیڑی لگی ہوئی تھی۔ تازہ تازہ برف باری ہو چکی تھی چند گھنٹوں کی مار پیٹ کے بعد انہوں نے مجھے ننگا برف پر پھینک دیا۔ فوجیوں کی موجودگی میں ایک خاتون مسلسل غزل پڑھ رہی تھی اور فوجی لوگ میرے جسم کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ غزلوں کا ایک ٹکڑا ابھی تک مجھے یاد ہے وہ گا رہی تھی: ’’امریکا عدل و انصاف کا گھر ہے اور عدل و انصاف کا خواہاں ہے ، ہر آدمی کے لیے انصاف چاہتا ہے۔‘‘ (بشرطیکہ مسلمان نہ ہو کیونکہ مسلمان ان کے نزدیک انصاف کا کوئی استحقاق ہی نہیں رکھتا) اس وجہ سے وہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا وحشی طریقہ روا رکھتے ہیں اور اس طرح کی غزل گاتے رہتے ہیں۔ ایسا وحشی طریقہ کہ جس کا نہ تو عدل و انصاف سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اسے عدل و انصاف کہہ سکتا ہے۔ برف پر شدید سردی تھی جسم بالکل شل ہو کر کانپتا تھا اور فوجی مسلسل چیختے تھے Stop Movement(حرکت مت کرو، مت ہلو) لیکن شدید سردی کی وجہ سے جسم کی لرزش اور کپکپاہٹ روکنا میرے بس میں نہ تھا آخر کار تین چار گھنٹے بعد شدید سردی کی وجہ سے میں بے ہوش ہوگیا اور پھر مجھے اپنا پتہ نہ چل سکا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک ایسے بڑے کمرے میں پڑا ہوا تھا جس میں دھوپ پڑتی تھی۔ تقریبا یہ دن کے نو دس بجے کا وقت تھا میرے جسم میں شدید درد تھا جو میرے لیے بالکل ناقابل برداشت تھا۔
(نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے)۔
کوئی تبصرے نہیں