1960 کی دہائی کو بالعموم پاکستانی فلم انڈسٹری کے عروج کا دور کہا جاتا ہے جس میں فلموں کی مجموعی تعداد نے ایک ہزار کا ہندسہ عبور کیا۔ اس وق...
1960 کی دہائی کو بالعموم پاکستانی فلم انڈسٹری کے عروج کا دور کہا جاتا ہے جس میں فلموں کی مجموعی تعداد نے ایک ہزار کا ہندسہ عبور کیا۔ اس وقت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں سنیما گھروں پر شائقین کا رش رہتا تھا۔ ’’زرقا‘‘ اسی دہائی کی ایک ڈائمنڈ جوبلی فلم تھی جس کا موضوع فلسطین کی جدوجہدِ آزادی تھا۔
60 کی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں جو نئے چہرے داخل ہوئے تھے ان میں اداکار وحید مراد، ندیم، محمد علی، زیبا، شبنم اور فردوس کے نام شامل ہیں۔ اسی طرح مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا وہ گلوکار تھے جنھیں سنیما کی بدولت ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی زمانے میں فلم سازوں اور ہدایت کاروں میں بھی کئی بڑے نام شامل تھے۔
فلمی تاریخ بتاتی ہے کہ 1969ء میں زرقا پاکستانی سینما میں ایک نیا تجربہ تھا۔ مسلم دنیا میں اس وقت فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور عام فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام پر شدید غم و غصّہ پایا جاتا ہے اور دنیا جنگ بندی پر زور دے رہی ہے، لیکن اسرائیل عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی اور غیر انسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔
نصف صدی سے زائد عرصہ بیت گیا جب معروف فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف ریاض شاہد نے زرقا کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا تھا اور اس فلم نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی تھی۔ یہ فلم 17 اکتوبر 1969ء کو پاکستان بھر میں سنیماؤں کی زینت بنی۔ کراچی کے اوڈین سنیما میں اس فلم کو نمائش کے بعد 102 ہفتے پورے ہوئے تھے اور یہ پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم بنی تھی۔
فلم کی کہانی بیت المقدس کے خلاف ہونے والی ایک سازش سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ کس طرح فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کو مغرب اور اس دور کی عالمی طاقتوں نے مل کر یہودیوں کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا۔
فلم زرقا کے نغمات کی شاعری اس موضوع کو سامنے رکھ کر تحریر کیے گئے تھے۔ فلم کا تھیم سونگ تھا،’’ہمیں یقین ہے ڈھلے گی اک دن ستم کی یہ شام اے فلسطیں…‘‘ فلم کا ایک اور گیت تھا، اے وطن تیری بربادی پر چپ کیوں کر رہوں، لٹ چکا ہے جو چمن اس کو چمن کیسے کہوں۔ قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے مسلمانانِ عالم کے اتحاد پر زور دیتی اس فلم کے موسیقار رشید عطرے تھے جنھیں عربی دھنوں پر کمپوزیشن بنانے میں کمال حاصل تھا۔ تاہم وہ فلم کے تین گیت کمپوز کرنے کے بعد وفات پاگئے تھے۔ ان کے بعد وجاہت عطرے نے اس کے گانوں کی دھنیں مرتب کیں۔ جن گلوکاروں نے اس فلم کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے ان میں نسیم بیگم، منیر حسین، مہدی حسن شامل ہیں۔
فلم کا ٹائٹل رول اداکارہ ’’نیلو‘‘ نے نبھایا تھا۔ یہ اداکارہ نیلو کے فلمی کیریئر کا لازوال کردار تھا۔ اداکار اعجاز نے اس فلم میں ہیروئن یعنی اداکارہ نیلو کے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں عرب مجاہد عمار کے روپ میں سامنے آئے تھے۔ اس فلم میں ایک یہودی میجر کی بیوی انجیلا کا کردار اداکارہ ناصرہ نے ادا کیا تھا۔
سینئر اداکار ساقی نے حریت پسند لیڈر شعبان لطفی کے بچپن کے دوست کا کردار ادا کیا، جو ایک صحرائی چور تھا۔ آخر اس کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور وہ وطن کے لیے شہید ہوجاتا ہے۔ اداکار کمال ایرانی نے حبشی غلام کا کردار عمدگی سے ادا کیا۔ اداکار علاء الدین نے حریت پسند تنظیم کے سربراہ کا کردار کچھ اس انداز سے کیا کہ آج بھی لوگ شعبان لطفی کو نہیں بھلا پائے۔ فضل حق، سیندو، بختی، الیاس کاشمیری، اسلم پرویز اور دیگر بھی اس فلم میں شامل تھے۔
اس فلم میں نیلو کا ایک ڈریس اس وقت بے حد مقبول ہوا تھا، جب پورے ملک میں فلم کی نمائش جاری تھی۔ اس ڈریس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین نے زرقا ڈریس کے نام سے اس ملبوس کی ریکارڈ خریداری ہوئی۔
کوئی تبصرے نہیں