Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

معروف ۔ شاعر ۔ جناب امید فاضلی ۔ کا یومِ پیدائش

  جانے کب طوفان بنے اور رستہ رستہ بچھ جائے  بند  بنا  کر  سو  مت  جانا،  دریا   آخر   دریا  ہے امید فاضلی  17 نومبر 1923.... معروف ۔ شاعر ۔ ...

 



جانے کب طوفان بنے اور رستہ رستہ بچھ جائے

 بند  بنا  کر  سو  مت  جانا،  دریا   آخر   دریا  ہے


امید فاضلی 


17 نومبر 1923....


معروف ۔ شاعر ۔ جناب امید فاضلی ۔ کا یومِ پیدائش ✨

اردو کے ممتاز شاعر امید فاضلی کا اصل نام ارشاد احمد تھا اور وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ سے حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسی محکمے سے وابستہ رہے۔ امید فاضلی اردو کے اہم غزل گو اور اہم مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ابتدا میں وہ امید ڈبائیوی کے نام سے شاعری کرتے تھے بعدازاں انہوں نے امید فاضلی کا قلمی نام اختیار کیا۔ امید فاضلی کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا جسے 1979ء میں شائع ہونے والے بہترین شعری مجموعے کا آدم جی ادبی انعام بھی عطا ہوا تھا۔ ان کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا، نعتوں کا مجموعہ میرے آقا، منقبتوں کا مجموعہ مناقب اور قومی شاعری کا مجموعہ پاکستان زندہ باد اور تب و تاب جاودانہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے جبکہ ان کا آخری مجموعۂ کلام زندہ گفتگو ہنوز تشنہ ٔ طباعت ہے۔امید فاضلی کے نعتیہ مجموعہ کلام میرے آقا پر بھی انہیں رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا تھا۔ 

28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب اردو کے ممتاز شاعر امید فاضلی کراچی میں وفات پاگئے۔

 کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


 ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ 


جانے کب طوفان بنے اور رستہ رستہ بچھ جائے

 بند  بنا  کر  سو  مت جانا،  دریا  آخر  دریا  ہے

 …٭٭٭…

 دلوں کو زخم نہ دو حرفِ ناملائم سے

 یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے 

…٭٭٭…

 کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی

 خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے۔


۔۔۔۔****۔۔۔۔۔

غزل

  جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا 

پرچھائیں زندہ رہ گئی انسان مر گیا 


بربادیاں تو میرا مقدر ہی تھیں مگر 

چہروں سے دوستوں کے ملمع اتر گیا 


اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں 

دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا 


اس شہر میں فراش طلب ہے ہر ایک راہ 

وہ خوش نصیب تھا جو سلیقے سے مر گیا 


کیا کیا نہ اس کو زعم مسیحائی تھا امیدؔ 

ہم نے دکھائے زخم تو چہرہ اتر گیا۔۔

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ