Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

نو مئی کے بعد عمران خان سے ہوئی ایک ملاقات کا احوال، اجمل جامی کا کالم

         نو مئی ہوچکا تھا، خان سپریم کورٹ کی پیشیاں بھگتنے کے بعد زمان پارک واپس براجمان تھے، چند صحافیوں کو ملاقات کے لیے یاد فرمایا۔ ڈرائن...

 


       نو مئی ہوچکا تھا، خان سپریم کورٹ کی پیشیاں بھگتنے کے بعد زمان پارک واپس براجمان تھے، چند صحافیوں کو ملاقات کے لیے یاد فرمایا۔ ڈرائنگ روم یا گھر کے اندر ملاقات کے بجائے باہر کوریڈور میں صحن کے ساتھ بیٹھک ہوئی، تھکاوٹ کے آثار چہرے پر نمایاں تھے، گمان تھا کہ سانحہ نو مئی کے بعد پریشان ہوں گے اور نئی حکمت عملی پر بات چیت کرنا مقصود ہوگا۔  گفتگو کے آغاز میں تو وہ قدرے نالاں اور مایوس دکھائی دیے، لیکن جیسے ہی ملاقات کے لیے آئے ’صحافیوں‘ نے ان کا جذبہ ابھارا، وہ فوراً توانا ہوگئے۔ یہ صرف ان کا مسئلہ نہیں، نواز ہوں یا شہباز، مریم ہوں یا بلاول، ان سب کے ہاں سوال اور تکرار کے بجائے تعریف اور تعمیل ہی کی قبولیت ہوا کرتی  ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ اس روز بھی آٹھ دس صحافیوں میں سے صرف خاکسار اور برادرم امیر عباس  وہ دو تھے جنہوں نے بار بار جناب خان صاحب کی خدمت میں سوال اٹھائے، صورتحال کا ادراک کرنے کی جانب توجہ مبذول کروائی اور ان سے پوچھا کہ سیاستدان ڈیڈ اینڈ سے حل نکالا کرتے ہیں، آپ ڈیڈ اینڈ کی جانب کیوں جا رہے ہیں؟ خان تاہم تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ دیگر جید اور عالم فاضل ہستیوں نے جناب خان کو اس حد تک ’پمپ‘ کیا کہ تھکے ہارے اور بے خوابی کا شکار جناب خان کی آنکھیں انقلاب کی بشارتیں سن کر چمک اٹھیں۔    انقلاب کی جعلی بشارتوں کے ہنگام وقفہ آیا تو ہم نے اپنی سی ایک اور کوشش کی، پوچھا کہ آپ نو مئی کے سانحے کے بعد بھی سیاسی طور پر سرگرم اور قابل قبول رہ سکتے تھے، آپ نے حل نکالنے کے بجائے دیوار کیوں کھڑی کی؟ انہوں نے استفسار فرمایا کہ اچھا تم بتاو کیا کرتا میں؟ عرض کیا تصور کیجیے، جناب خان اگر نو مئی کے بعد کچھ یوں عوام اور خواص سے مخاطب ہوتے: ’نو مئی کے واقعات میں جو جو ملوث ہے اسے پکڑا جائے، قرار واقعی سزا دی جائے، چاہے اس کا تعلق تحریک انصاف سے ہے یا کسی اور جماعت سے، میں ایسے تمام واقعات کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور ایسے عناصر سے قطع تعلقی کا اعلان کرتا ہوں۔  قوم مزید بحران اور تقسیم کا شکار نہیں ہوسکتی، آئیے مل بیٹھ کر انتخابات کے لیے اور سیاسی استحکام کے لیے کوئی راہ نکالتے ہیں، اس سلسلے میں میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوں۔‘ یہ جواب سنتے ہی وہ مسکرائے، تسبیح روکی، ٹانگ سے ٹانگ اتاری، سامنے میز کی جانب جھکے اور دونوں ہاتھ آپس میں ملاتے ہوئے گویا ہوئے ’اس سے کیا ہوتا؟‘ عرض کیا، حضور! مقامی میڈیا سمیت دنیا بھر میں آپ کے اس بیان کی واہ واہ ہوتی، یہ بیان جناب کو مقبولیت سے قبولیت کی جانب لے جانے میں ممد و معاون ثابت ہوتا۔ میڈیا بلیک آوٹ کرنے کے بجائے اس بیان پر آپ جناب کو داد پیش کرنے پر مجبور ہوتا، تحریک انصاف کے رہنما اور ترجمان غائب ہونے کے بجائے مزید ہمت و حوصلے کے ساتھ پراعتماد طریقے سے اپنی جماعت کا موقف پیش کرنے کے قابل ہوجاتے۔     یہاں تک بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ جناب خان ہماری دلیل سے خاصے سہمت ہیں، ہم نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور! اِٹس نیور لیٹ، آپ کے پاس ابھی بھی وقت ہے معاملات سدھار لیجیے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، ایک اور جید عالم نے ایک نئی بشارت ان کے گوش گزار کر دی، اس بشارت میں اگست ستمبر تک نظام تلپٹ ہو کر جناب خان کے گھٹنوں پر بیعت کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ سنتے ہی جناب خان ایک بار  پھر ہم سے مخاطب ہوئے،  لیکن جامی ہماری جماعت کا تو نو مئی سے کوئی تعلق ہی نہیں، یہ تو ہمارے خلاف سازش ہے، میں مذمت کر کے کیوں ذمہ داری قبول کروں؟ عرض کیا، حضور کور کمانڈر ہاؤس لاہور کے سامنے فوجی وردی لہراتا نوجوان کون تھا؟ کیا اس کا بھی آپ یا آپ کی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں؟ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے جواباً یہ بتلانے کی کوشش کی کہ انہوں نے حسان خان نیازی کی وہ ویڈیو اس وقت تک نہیں دیکھی تھی۔ بہرحال! سیاست دان اور بالخصوص مقبول سیاست دان تقسیم شدہ سیاسی منظر نامے کے ہنگام غالباً مرضی کا سچ اور مرضی کی تاویل ہی سننا چاہتا ہے۔ پالیسیوں پر تنقید اور انداز سیاست پر سوال شاید انہیں  ناگوار گزرتے ہیں۔ یہ اعتراف اپنی جگہ کہ دیگر سیاسی قائدین کی نسبت جناب خان کے ہاں سوال اور تنقید سننے کی سکت کہیں زیادہ تھی۔   المیہ البتہ یہ رہا ہے کہ مقبولیت کے ساتھ قبولیت کے لیے جناب خان نو مئی سے پہلے اور بعد میں بھی صرف وہیں دیکھا کرتے تھے جہاں دیکھنا کتابوں کی حد تک غیر جمہوری کہلاتا ہے، وہ پہلے بھی چوروں لٹیروں کے ساتھ مل بیٹھنے کے بجائے عسکری قیادت کے ساتھ ہی معاملہ فہمی کے خواہاں تھے اور شاید آج بھی۔ انہیں قوی امید ہے کہ عوامی تائید اور مقبولیت ایک نہ ایک دن انقلاب برپا کر کے ہی دم لے گی۔ اس بیچ وہ دیگر سیاسی قوتوں اور ریاستی بندوبست کا وجود تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور سچ پوچھیے تو اب تلک یہی ان کی سب سے بڑی غلط فہمی اور سیاسی غلطی ہے۔ آج جبکہ ایک بار پھر انتخابات کے حوالے سے افواہیں جنم لے رہی ہیں تو ہم یہی عرض کر سکتے ہیں کہ اب کے بار خان صاحب کو نہیں بلکہ نوازشریف، مولانا اور زرداری صاحب کو ’صحافتی بشارتیں‘ سننے کے بجائے حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کیونکہ اس سے نظام کی بساط تو الٹے گی ہی ان کی اپنی سیاسی ساکھ بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔  ہونے کو تو یہاں کچھ بھی کبھی بھی کہیں بھی ہو جاتا ہے لیکن معلومات کی بنیاد پر راقم یہ کہنے پر مجبور ہے کہ وفاق اور بالخصوص پنجاب میں تعینات نگراں سیٹ اپ شدت سے تمنا رکھتا ہے کہ تاخیر ہو التوا ہو تاکہ انہیں مزید وقت کی مے دستیاب ہو سکے۔     التوا کے لیے جاری پلاننگ پر متوقع ردعمل اور رائے عامہ جاننے کے لیے قلم کاری کا آغاز بھی ہو چکا۔ لیکن ہمارے ہاں عموماً اے کیٹیگری کی پلاننگ بی کیٹیگری تک آتے آتے دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ دلیل کے طور پر نواز شریف کی واپسی دیکھ لیجیے، تاخیر ہی مطلوب تھی تو ان کا سواگت کاہے کو کیا گیا؟ معیشت میں سدھار اور خلیجی ممالک کی جانب سے متوقع سرمایہ کاری کے نام پر انتخابی التوا خواہش تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں، کیونکہ فیض آباد دھرنا کیس میں ’آئین و قانون کا علم‘ بلند کرنے والے انتخابی عمل میں مزید تاخیر کی ضمانت چنداں نہیں دے سکتے، یہ ان کی لیگیسی کے لیے موت ہوگی۔


کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ