Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

پروین شاکر

                                   یال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم بچھڑ گیا تری صورت بہار کا موسم کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں ٹھہر گی...

                                 



یال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم

بچھڑ گیا تری صورت بہار کا موسم

کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں

ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم

وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آئے

سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم

پیام آیا ہے پھر ایک سرو قامت کا

مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم

وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے

مرے بدن کو ملا ہے چنار کا موسم

رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر

گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم

ہوا چلی تو نئی بارشیں بھی ساتھ آئیں

زمیں کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم

وہ میرا نام لیے جائے اور میں اس کا نام

لہو میں گونج رہا ہے پکار کا موسم

قدم رکھے مری خوشبو کہ گھر کو لوٹ آئے

کوئی بتائے مجھے کوئے یار کا موسم

وہ روز آ کے مجھے اپنا پیار پہنائے

مرا غرور ہے بیلے کے ہار کا موسم

ترے طریق محبت پہ بارہا سوچا

یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم

<------------------------------->

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا

جتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا

تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو

کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا

اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ

میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا

ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض

سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا

لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو

تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا

تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے

تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا

<------------------------------->

اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک

جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک

ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر

ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک

دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے

خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک

پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی

زخم اپنے رفو کروں کہاں تک

ساحل پہ سمندروں سے بچ کر

میں نام ترا لکھوں کہاں تک

تنہائی کا ایک ایک لمحہ

ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک

گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج

میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک

سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو

دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک

منسوب ہو ہر کرن کسی سے

اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک

آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں

پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک


اتنا معلوم ہے....

پروین شاکر


اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز

سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہوگا

میں یہاں ہوں مگر اس کوچۂ رنگ و بو میں

روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہوگا

اور جب اس نے وہاں مجھ کو نہ پایا ہوگا!؟


آپ کو علم ہے وہ آج نہیں آئی ہیں؟

میری ہر دوست سے اس نے یہی پوچھا ہوگا

کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہوئی ہے آخر

خود سے اس بات پہ سو بار وہ الجھا ہوگا

کل وہ آئے گی تو میں اس سے نہیں بولوں گا

آپ ہی آپ کئی بار وہ روٹھا ہوگا

وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے یہ سوچا ہوگا

راہداری میں ہرے لان میں پھولوں کے قریب

اس نے ہر سمت مجھے آن کے ڈھونڈا ہوگا


نام بھولے سے جو میرا کہیں آیا ہوگا

غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہوگا

ایک جملے کو کئی بار سنایا ہوگا

بات کرتے ہوئے سو بار وہ بھولا ہوگا

یہ جو لڑکی نئی آئی ہے کہیں وہ تو نہیں

اس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہوگا

جان محفل ہے مگر آج فقط میرے بغیر

ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہوگا

کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہوئی ہوگی اسے

اس نے بے ساختہ پھر مجھ کو پکارا ہوگا

چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پا کر

دوستوں کو بھی کس عذر سے روکا ہوگا

یاد کر کے مجھے نم ہو گئی ہوں گی پلکیں

''آنکھ میں پڑ گیا کچھ'' کہہ کے یہ ٹالا ہوگا

اور گھبرا کے کتابوں میں جو لی ہوگی پناہ

ہر سطر میں مرا چہرہ ابھر آیا ہوگا

جب ملی ہوگی اسے میری علالت کی خبر

اس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہوگا

سوچ کر یہ کہ بہل جائے پریشانی دل

یوں ہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہوگا!


اتفاقاً مجھے اس شام مری دوست ملی

میں نے پوچھا کہ سنو آئے تھے وہ؟ کیسے تھے؟

مجھ کو پوچھا تھا مجھے ڈھونڈا تھا چاروں جانب؟

اس نے اک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنس دی

اس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اس سے آگے

کیا کہا اس نے مجھے یاد نہیں ہے لیکن

اتنا معلوم ہے خوابوں کا بھرم ٹوٹ گیا!

     


ہم نے وہ زندگی گزاری ہے


جون ایلیاء

_______________________


بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی

اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے


پروین شاکر



پروین فنا سید


بُھول  کر  تُجھ  کو  بھرا  شہر  بھی تنہا دیکُھوں

یاد   آ   جائے   تو    خود   اپنا    تماشا    دیکُھوں


مُسکُراتی   ہُوئی  اُن  آنکھوں   کی  شادابی   میں

مَیں   تِری  رُوح   کا   تپتا   ہُوا   صحرا   دیکُھوں


اِتنی  یادیں  ہیں  کہ  جمنے  نہیں  پاتی  ہے  نظر

بند آنکھوں کے دریچوں سے مَیں کیا کیا دیکُھوں


وقت کی دُھول سے اُٹھنے لگے قدموں  کے نُقُوش

تُو  جہاں  چھوڑ  گیا   ہے   وہی   رستہ  دیکُھوں


یُوں تو بازار میں چہرے ہیں حسیں ایک سے ایک

کوئی  چہرہ   تو  حقیقت  میں  شناسا  دیکھوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ 


پروین شاکر


اپنی  رسوائی  تِرے  نام  کا چرچا دیکُھوں

اِک ذرا شعر کہوں اور مَیں کیا کیا دیکُھوں


نیند آ جائے  تو   کیا  محفلیں  برپا  دیکُھوں

آنکھ کُھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکُھوں


شام بھی ہو گئی دُھندلا گئیں آنکھیں بھی مِری

بُھولنے  والے  مَیں  کب  تک  تِرا  رستہ دیکُھوں


ایک اِک کرکے مُجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں

آج  مَیں خود  کو  تِری  یاد  میں  تنہا دیکُھوں


کاش  صندل   سے  مِری  مانگ  اُجالے   آ   کر

اِتنے  غیروں  میں  وہی  ہاتھ جو اپنا دیکُھوں


تو  مِرا کُچھ  نہیں  لگتا  ہے  مگر  جانِ حیات

جانے  کیوں  تیرے لیے دِل کو دھڑکنا دیکُھوں


بند کرکے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے

بُوجھے جانے کا مَیں ہر روز تماشا دیکُھوں


سب ضدیں اُس کی مَیں پُوری کرُوں ہر بات سُنوں

ایک  بچے  کی  طرح  سے  اُسے  ہنستا  دیکُھوں


مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبُو کی طرح

انگ  انگ  اپنا   اِسی   رُت   میں   مہکتا   دیکُھوں


پُھول کی طرح مِرے جِسم کا ہر  لب کُھل جائے

پنکھڑی  پنکھڑی اُن  ہونٹوں  کا  سایا  دیکُھوں


مَیں نے جِس لمحے کو پُوجا ہے اُسے بس اِک بار

خواب  بن کر  تِری  آنکھوں  میں  اُترتا  دیکُھوں


تو  مِری طرح  سے  یکتا  ہے  مگر  میرے حبیب

جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تُجھ سا دیکُھوں


ٹُوٹ جائیں کہ پِگھل جائیں  مِرے  کچے  گھڑے

تُجھ کو مَیں دیکُھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکُھوں۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ