Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔تیسری قسط

   اسامہ کہاں ہے؟  میں نے دیکھا کہ میرے سامنے دائیں جانب دو فوجی جو سر پر کالی تھیلی اوڑھے اور ہاتھوں میں ایک بڑا ڈنڈا لیے میری طرف مارنے کی...

 


 اسامہ کہاں ہے؟  میں نے دیکھا کہ میرے سامنے دائیں جانب دو فوجی جو سر پر کالی تھیلی اوڑھے اور ہاتھوں میں ایک بڑا ڈنڈا لیے میری طرف مارنے کی غرض سے بڑھ رہے تھے اور بائیں جانب دو کالے ہاتھی نما دیو فوجی ہاتھوں میں پستول تھامے کھڑے تھے ۔دوسرے فوجیوں کے پاس بندوقیں تھیں۔ میرے سر پر کھڑے سب ایک ہی بلند آواز میں یہ تین چیزیں پوچھتے تھے: 1. Where is Usama? اسامہ کہاں ہے؟ 2. Where is Mulla Omar? ملا عمر کہاں ہے؟ 3. What did you do in New York and Washington? تو نے نیو یارک اور واشنگٹن کے بارے میں کیا کیا؟ یہ لوگ جب مسلسل چیخے اور پھر انہیں معلوم ہو اکہ میرے اندر بولنے اور حرکت کرنے کی طاقت نہیں تو انہوں نے کچھ وقت کے لیے مجھے چھوڑ دیا اور پھر آسمانی کلر کا یونیفارم پہنا کر مجھے ایک ٹھنڈے گڑھے میں پھینکا گیا، شدید تکلیف اور سردی کی وجہ سے میں پھر بے ہوش ہوگیا۔ جب دوبارہ ہوش آیا تو میں ایک لحاف کے اندر لیپٹا ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے میں نے سر لحاف سے اس حال میں نکالا کہ میرے ہاتھ اور پاؤں زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے۔  گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ چوتھی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ چوبیس گھنٹے کچھ نہ کھایا: میں سوچتا رہا کہ یہی کیوبا کا جیل خانہ گوانتاناموبے ہوگا لیکن پھر نظر دوڑانے کے بعد میں نے وہاں دیواروں پر طالبان کی پرانی تحریریں بمع تاریخ دیکھیں تو مجھے پتہ چلا کہ یہ تو کیوبا نہیں افغانستان ہی ہے(جس کا کبھی میں سفیر تھا) یہ ایک چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا کمرہ تھا۔ گیٹ پر ایک امریکن خاتون فوجی بیٹھی تھی جو میرے پاس آئی اور پوچھا کہ آپ کو کیا چاہئے؟ لیکن مجھ میں تو زبان ہلانے کی سکت نہ تھی۔ وہ بار بار پوچھتی کہ آپ کو انگلش آتی ہے؟ آخر جواب نہ ملنے پر وہ واپس جا کر اپنی جگہ بیٹھ گئی ۔یہ عصر کا ٹائم تھا۔ پورے دن کی نمازیں قضا ہوگئی تھیں اور میرے اندازے کے مطابق اب تک 24گھنٹے گزر چکے تھے کہ میں نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا تھا۔ مظلوم کی دعا: جسم کی ساری ہڈیوں میں شدید درد تھا۔ میرے سر اور کندھوں کو فوجیوں نے تشدد کرکے توڑ دیا تھا، میرا چہرہ خون سے سرخ تھا اور میں بڑا پریشان تھا کہ اور مزید کیا ہوگا؟ اور میں اس طرح کی دعائیں بہت کرتا تھا کہ یا اللہ! آپ مجھ سے راضی ہو جائیے، دوسرے مسلمان بھائیوں کو اس قسم کی تکالیف سے بچائیے، کسی بھی مسلمان کو ہماری طرح ذلت کے امتحان میں مت ڈالے۔ خصوصاً علماء کرام کو اس آزمائش سے محفوظ فرمائیے۔ اس لیے کہ ان کی بے عزتی تمام مسلمانوں کی بے عزتی ہے۔ اے رب! تو اپنی رحمت سے افغانستان کے مظلوم عوام کی مدد فرما اور ان کی حفاظت فرما۔ سخت اور مشکل وقت میں میرے منہ سے یہی الفاظ نکلتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائیں۔ رات آپہنچی۔ جنریٹر اسٹارٹ ہوا اور کمرے کے اندر ایک بلب روشن ہوا۔ میری زبان میں تھوری سی حرکت پیدا ہوئی اور میں نے فوجی خاون سے دھیمی اور پست آواز میں کہا (Can you help me)(کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں؟) اس نے پوچھا کس چیز کی ضرورت ہے؟ میں نے نماز پڑھنے کی اجازت مانگی تو اس نے اجازت دیدی اور میں نے زنجیر میں بند ہاتھوں سے تیمم کرکے نماز پڑھنی شروع کر دی۔ اسی اثناء میں دو اور آدمی آئے اور کونے میں چھپ کر بیٹھ گئے میں بہت ڈر رہا تھا کہ نماز میں ہی مجھے روک نہ دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے خیر کا معاملہ کیا اور میں نے نماز پڑھ لی۔ بگرام میں تفتیش کا مرحلہ: نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو وہ دو آدمی جو بیٹھے تھے۔ ایک فوجی وردی میں جبکہ دوسرا ملکی سول لباس میں تھا۔ اس نے مجھ سے فارسی زبان میں پوچھا کہ کیا حال ہے؟ اس کا لب و لہجہ ایرانی فارسی کی طرف مائل تھا اور اس کا نام فرید تھا جو کہ اصلاً امریکی تھا اور ایران میں اس کی پرورش ہوئی تھی جبکہ دوسرا ایک موٹا کالا امریکی تھا۔ ان دو آدمیوں نے مجھ سے پوچھا’’آپ کی صحت کیسی ہے؟ سردی تو نہیں لگ رہی؟‘‘ میں صرف الحمد للہ ! کہتا تھا، گزرے واقعات و عذاب کا میں ان کے سامنے تذکرہ نہیں کرتا تھا اس لیے کہ میرے خون آلود چہرے سے سب کچھ عیاں تھا۔ اس کے بعد انہوں نے سوالات پوچھنا شروع کیے پورے سوالات کا محور صرف ایک ہی ہوتا تھا کہ اسامہ اور ملا عمر کہاں ہیں؟ میں جو طرح ان کی زندگی اور موت سے بے خبر تھا تو جوابات عموماً نفی میں تھے اس پر ان کے چہروں کے رنگ بدلتے رہے اور آہستہ آہستہ ان کا لہجہ سخت ہوتا رہا ان کی باتوں میں دھمکی کا پہلو صاف اور واضح تھا لیکن میرے پاس وہی منفی جواب تھا اور ان کے سخت رویے نے مجھ پرکوئی اثر نہیں کیا۔  (نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے)۔

چھ دن بعد کھانا کھایا: چھ دن گزر گئے تھے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا تھا اس لیے کہ ایک سال پرانا پیک شدہ فوجی کھانا یا تو میں کھا نہیں سکتا تھا یا پھر مجھے ان کے حلال و حرام کاپتہ نہیں چلتا تھا۔ چھ دن کے بعد مجھے آدھی روٹی اور ایک کپ چائے تفتیش کار کی طرف سے ملی ۔اس کے بعد تقریباً ایک روٹی روزانہ مجھے دیتے تھے۔ ایک مہینے سے یہاں تھا اور یہاں موجود فوجیوں کو یہ حکم تھا کہ مجھے سونے نہ دیا جائے۔ بیس دن تک میں یہاں بے سرو سامانی کے عالم میں ہاتھ پاؤں بند قید میں تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں کھانے کے لیے اور نہ ہی کسی دوسری ضرورت کے لیے کھلتے تھے اس کے بعد ایرانی تفتیش کار کے ذریعے مجھے ایک چھوٹا سا پیکٹ سائز قرآن مجید ملا تو اب میں اس کی تلاوت میں مصروف رہتا تھا لیکن شدید سردی تھی اور بعض اوقات تو میں اپنے اوپر اوڑھنی کو بھی سیدھا نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے کہ سردی کے مارے میرے ہاتھ کی انگلیاں شل ہو جاتی تھیں۔ ہاں میں ضعیف ہوں: ایک دن صبح سویرے 24یا25 جنوری2002ء کو آٹھ نو بجے کے قریب تقریباً چھ آدمی میرے کمرے میں لائے گئے جن کے سروں پر تھیلیاں چڑھی ہوئی تھیں اور انہیں کمرے کے کونے میں بٹھا دیا گیا۔ ان کے ساتھ عربی زبان کے ترجمان بھی تھے اور ترجمانوں کے ذریعے انہیں بار بار کہا جاتا تھا کہ چپ ہو کر بیٹھ جاؤ اور بالکل خاموش رہو، باتیں بالکل نہ کرنا۔ ایک دو مسلح فوجی دروازے کے پیچھے بیٹھ گئے اور ایک لمحے کی خاموشی کے بعد آپس میں باتیں شروع ہوگئیں اور ان کے بار بار منع کرنے کے باوجود ہماری باتوں میں تیزی آتی رہی اور فوجی بھی خاموش بیٹھے رہے۔ بالآخر عربی ترجمان آیا اور بہت کوشش کے باوجود ہمیں خاموش کرانے میں ناکام رہا۔ ایک عرب بھائی نے مجھ سے پوچھا:’’آپ ضعیف تو نہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں میں ضعیف ہوں‘‘ پھر ان چھ بھائیوں نے مجھ سے باتیں کیں اور تسلی دیتے تھے انہوں نے مجھ سے اپنا تعارف کروایا ان چھ کے نام یہ ہیں: سالم سقر، سلمان یمنی، شیخ فیض کویتی، شمیر الجزائری، طارق(جو کہ اصلاً جزائر کے تھے لیکن لندن کی نیشنلٹی تھی) محمد قاسم حلیمی افغانی، ہمیں یہاں کسی سے چھپایا گیا تھا اور ہم یہ سمجھ گئے تھے اس لیے ہم بلند آواز سے بولتے تھے۔ یہ ہمارے پیچھے دروازے کیوں بند ہے؟ ہم سب کو ایک ساتھ تنگ جگہ پر کیوں رکھا جا رہا ہے؟ وہ جواباً کہتے تھے کہ دروازہ اس لیے بند رکھا ہے کہ یہاں کچھ لوگ آتے رہتے ہیں اور اگر انہیں تمہارا پتا چل گیا تو تمہیں قتل کر دیں گے لیکن ہم سمجھ گئے تھے کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے بلکہ بات کوئی اور ہے۔ عصر تک یہ لوگ میرے ساتھ رہے پھر ان کو وہاں سے لے جایا گیا۔ میری گرفتاری کے بعد یہ دن میرے لیے سب سے اچھا تھا۔ صبح پھر یہ لوگ میرے کمرے میں لائے گئے اور میں ایک بار پھر خوش ہوا۔ اس لیے کہ یہ لوگ اور قیدیوں کے ساتھ تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ گزشتہ دن کیا ماجرا تھا تو انہوں نے کہا کہ اس دن ہلال احمر کا نمائندہ آیا تھا اور وہ قیدیوں سے خطوط وصول کر رہا تھا تاکہ انہیں ان کے عزیز و اقارب تک پہنچائے اور ہمیں ان سے چھپانے کے لیے یہاں لایا گیا تھا اور آج پھر وہ آرہے ہیں اس لیے وہ دوبارہ ہمیں یہاں چھپانے کے لیے لے آئے۔

گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ پانچویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔ ارضِ جہاد کی مقدس مٹی: عصر کے وقت پھر انہیں یہاں سے نکال کر دوسری جگہ لے جایا گیا اور میں اپنے خراب دیواروں والے کمرے کے اندر اکیلا رہ گیا ۔ان دنوں ہمیں بہت زیادہ کھانا ملتا رہا اور یہ پہلی بار تھا کہ میں خوب سیر ہوا۔ اس دفعہ میں نے حلیمی صاحب کو بھی پہچانا۔ دو دن بعد مجھے نیچے کمرے میں لے جایا گیا اور وہاں حلیمی صاحب اور سالم سقر بھی موجود تھے۔ سالم بھائی کا وہ قصہ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے جو وہ سنا رہا تھا ۔وہ کہہ رہا تھا کہ میری ایک چھوٹی معصوم بچی تھی جو تازہ تازہ بولنا سیکھ رہی تھی۔ چیختی تھی کہ (ابی سرد) ابو جی سردی ہے۔ اور اس کی والدہ روتی رہی اور بددعائیں دیتی رہی۔ اس لیے کہ قندھار میں ہمارے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی۔اوپر سے مسلسل بمباری جاری تھی۔ میں اور بچی کی والدہ بے بس تھے اور بچی کی بار بار سردی کی شکایت اور رونے پر ہم بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے۔ یہاں سے منتقلی کے وقت کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ قندھار شہر پر ابھی قبضہ نہیں ہوا تھا کہ میں نے اپنے بچوں کو دیگر عرب خواتین کے ہمراہ چمن پہنچایا۔ عرب خواتین افغان سر زمین کی مٹی اپنے دو پٹوں کے ساتھ باندھ کر چل رہی تھیں۔ میں نے ان سے افغان مٹی ساتھ لے جانے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ افغانستان شہداء اور غازیوں کا ملک ہے اور ہمیں اس کا دیدار پھر کبھی نصیب نہ ہوگا اس کی کچھ نشانی ہم ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔یہ وہ واحد سر زمین ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ ہوئے ۔ دوسری جگہ منتقلی: تین دن سے ہم تینوں بھائی یہاں ساتھ تھے اور آخری دن ہمیں ایک اور جگہ منتقل کیا گیا ۔رات ہوگئی تھی ۔حلیمی صاحب کو تحقیق کے لیے لے گئے اور ہم نے عشاء کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد فوجی آئے اور ہمیں نیچے کمرے میں لے گئے۔ وہاں دوسرے بھائیوں کے ہاتھ پیر باندھتے ہم نے دیکھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ ان کو دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ تقریبا بیس کے قریب قیدی یہاں موجود تھے۔ جن کے ہاتھ پاؤں اور سر مضبوط باندھے گئے تھے جو کہ کسی اور جگہ منتقلی کی علامت تھی۔ قندھار منتقلی: بڑی تیزی کے ساتھ فوجیوں نے میرے ہاتھ پاؤں باندھے اور سر پر وہی کالا تھیلا پہنچایا اور پھر میرا سر دوسرے قیدی کے شانے پر ٹکائے رکھا اور اسی طرح میرے شانے پر ایک اور قیدی کا سر لگایا۔ ایک گھنٹہ تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ اس کے بعد ہم سب کو کھڑا کیا گیا اور اونٹوں کی طرح ایک لائن میں کھڑا کرکے ہمارے ہاتھوں کو ایک پتلی سی تیز دھار رسی سے باندھا گیا۔ فوجی ہی رسی دائیں بھائیں کھنچتے تو قیدیوں کی چیخیں درد و تکلیف کے مارے آسمان سے باتیں کرتیں ۔اس لیے کہ رسی ان کے بار بار مختلف سمتوں میں کھینچنے سے ہاتھوں کے اندر گھس جاتی تھی اور درد و تکلیف میں اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ ہماری اس لائن میں ایک قیدی نافع جو کہ سوڈان کے تھے اور ان کے دونوں پاؤں پہلے سے شدید زخمی تھے وہ غریب مظلوم بہت چیختا تھا۔



کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ