ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی ...
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں
مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
نوبہار ہوٹل کے طیفو نے مجھے بتایا کہ ایک دوپہر ساغر صدیقی آیا
تو اس کے ہاتھ میں پانچ سو روپے کا نوٹ تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ
اب کے میں ریشم کا بستر بنواؤں گا......،
پھر ساغر نے سگریٹ پی چائے منگوائی اور بستر لینے چلا گیا مگر تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو
طیفو نے پوچھا
' بابا تم تو بستر لینے گئے تھے "
ساغر نے جواب دیا " لے لیا ہے طیفو"
مگر بستر ہے کہاں اور باقی رقم کیا ہوئی؟؟
ساغر نے اس سڑک کے پار بجری پر لیٹے ہوئے کسی ننگے شخص دکھا کر کہا " اس کو دیکھ کر بستر کا خیال ترک کر دیا اور سارے روپے اُسے دے دیے
(یونس ادیب کی کتاب " شکستِ ساغر " سے اقتباس)
کوئی تبصرے نہیں