کمانڈر دوستم کے ہولناک مظالم: تاجکستان کے محمد یوسف اور یمن کے مختار میرے پڑوس میں قید تھے۔ ان کو قلعہ جنگی سے زندہ گرفتار کیا گیا تھا۔ ان...
کمانڈر دوستم کے ہولناک مظالم:
تاجکستان کے محمد یوسف اور یمن کے مختار میرے پڑوس میں قید تھے۔ ان کو قلعہ جنگی سے زندہ گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی بپتا سنائی کہ کس طرح وہ گرفتار ہوئے اور دوستم کے وحشی فوجیوں کے مظالم کا شکار بنے وہ کہتے تھے کہ دوستم اور ان کے ساتھی طالبان مجاہدین کو گولی نہ مارتے بلکہ کھلے میدان میں کھڑا کرکے ننگا کر دیتے۔ کانوں میں لکڑی کے ٹکڑے ٹھونس دیتے اور پتھر مار مار کر مار دیتے تھے۔ طالبان کو ننگا کرکے پہلے میدان میں پھرایا جاتا۔ پھر ہاتھ پاؤں باندھ کر کنٹینر میں بند کر دیا جاتا اور تالا لگا کر کنٹینر کے نیچے آگ جلا دی جاتی۔ اس طریقے سے دوستم نے پانچ سے آٹھ ہزار تک طالبان کو جان سے مارا۔ محمد یوسف نے بتایا کہ میرے ناخن پلاس کے ذریعے نوچے گئے۔ وہ باقاعدہ پاسپورٹ لے کر افغانستان گیا تھا اور قندوز میں مزدوری کیا کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ایک کنٹینر میں300طالبان کو ٹھونس ٹھونس کر بند کیا جاتا۔ کنٹینر کے باہر جو آوازیں سنائی دیتیں تولگتا کہ وہ سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے کوئی کہتا کہ حضور ﷺ آرہے ہیں۔ کوئی کہتا ہم جنت جا رہے ہیں۔ یوسف نے کہا کہ مجھے بھی تین دن تک کنٹینر میں بند رکھا گیا۔ تین دن بعد جب کنٹینر کھولا گیا تو اس میں صرف چند افراد ہی زندہ بچے تھے جن میں سے ایک میں بھی تھا۔
گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ چھٹی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
جھوٹ معلوم کرنے کی مشین:
ایک بار مجھے تفتیش کے لیے لے جا کر کمرے میں سفید کرسی پر بٹھایا گیا اور خلاف معمول ہاتھ پاؤں کھولے گئے۔ ایک چمکیلی آنکھوں والے چالاک امریکی نے ایک سفید ریش فارسی بولنے والے ترجمان کے ذریعے بتایا کہ یہ مشین جھوٹ معلوم کرتی ہے اس کو Lie Detector Machineکہتے ہیں۔ یہ مشین آپ کے سچ اور جھوٹ کا پتہ لگائے گی۔پھر مجھے اس مشین پر بٹھایا گیا۔ میں نے کہا یہ مشین پہلے کہاں تھی؟ آپ نے مجھے ساڑھے تین سال عذاب سے دوچار رکھا۔ اگر یہ مشین پہلے استعمال ہو جاتی تو آپ کو سچ جھوٹ کا پتہ چل جاتا۔ اس نے پہلا سوال پوچھا:
’’آپ کو کون بہتر جانتا ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا’’ میرا خالق‘‘
پھر پوچھا ’’اس کے بعد؟‘‘
میں نے کہا’’ کوئی دوسرا میرے دل کا حال نہیں جانتا‘‘
اس نے کہا میں جان گیا ہوں۔ مشین ایسی تھی کہ دل کی دھڑکنوں اور فشار خون کے ذریعے سکرین پر گراف کی طرز پر کچھ دکھاتی اور جب کوئی جھوٹ بولتا تھا تو ظاہر ہے کہ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی پھر یہ امریکی اس پر شک کرتے۔
جب میں نے کہا’’کہ مجھے کوئی اور نہیں صرف میرا خدا بہتر جانتا ہے ‘‘
وہ کہتا’’ ہم خدا سے بہتر تمہیں جانتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا ’’ کہیں خدائی کا دعویٰ نہ کر بیٹھو۔‘‘
اس نے پوچھا ’’ کبھی خدا کی نافرمانی کی ہے یا نہیں؟‘‘
میں نے کہا ’’ہاں کی ہے‘‘۔
اس مشین کے سامنے کوئی حوصلے سے بات کرتا تو کامیاب ہو جاتا۔ کوئی گھبرا کر سچ بھی بولتا تو امریکی سکرین دیکھ کر اس پر شک کرتے۔
عرب بھائی کو ذبح کر دیا گیا:
فوجی برابر دھمکاتے رہتے تھے اور چیخیں نکالنے سے منع کرتے تھے لیکن زیادہ سختی اور عذاب کی وجہ سے چیخیں نہیں رکتی تھیں ہمارے ساتھ لائن میں ایک بھائی امین اللہ کے نام سے بھی تھے جو ’’توبی‘‘ کے رہنے والے تھے اور اس وقت چمن میں رہ رہے تھے نے مجھے بعد میں قندھار میں بتایا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہمیں ذبح کرنے کے لیے لے جایا جا رہا ہے اور خصوصاً اس وقت تو مجھے بالکل ذبح ہونے کا یقین ہوگیا کہ جب ایک زخمی عرب بھائی کی آوازیں اور خراٹے بلند ہونے لگے اور یوں لگ رہا تھا کہ اس کو ذبح کیا جا رہا ہے اور یہ آوازیں ذبح ہونے کے وقت کی ہیں۔ امین اللہ بھائی کہہ رہے تھے کہ شدید درد کی وجہ سے عرب بھائی کی یہ اٹھتی ہوئی بلند آوازیں سن کر مجھے یقین ہوگیا تھا کہ عرب بھائی کو ذبح کر دیا گیا اور اب ہماری باری ہے۔ میں نے کلمہ شہادت کا ورد شروع کر دیا تھا میں نے بھی کئی بھائیوں سے سنا کہ وہ کلمہ شہادت پڑھ رہے ہیں اور تسلی پر مبنی قرآنی آیات کی تلاوت کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیں ایک بنجر و ویران زمین پر چلایا جا رہا تھا اور کبھی کبھی تو ہم گڑھوں میں گر جاتے تھے۔ یوں رفتہ رفتہ ہم ایک آواز کے قریب ہوتے رہے اور قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہاں ایک بڑا ہیلی کاپٹر کھڑا ہے اور ہیلی کاپٹر کے زیادہ شور کی وجہ سے میں دوسرے بھائیوں کی چیخ و پکار کو بھی نہیں سن سکتا تھا۔
یہاں پہنچ کر ہمیں ایک دوسرے کے اوپر یوں پھینکا گیا جس طرح بڑا گھر منتقل کرکے سامان ایک دوسرے پر پھینکا جا رہا ہو۔ اس کے بعد ہمیں ہیلی کاپٹر کے اندر ایک ایک کرکے چڑھایا گیا اور وہاں پر موجود ایک بنچ سے باندھا گیا ایک پٹہ ہمارے سینے اور سر پر بھی کھینچا گیا اور بڑا سخت درد ناک عالم تھا۔ ہم چیختے رہے اور اس کا جواب امریکی وحشی فوجی بوٹوں اور گھونسوں سے دیتے لیکن پھر بھی منزل قریب تھی اور تقریباً ایک گھنٹے بعد ہیلی کاپٹر اتر گیا۔ لوگ آگے کو زور لگا رہے تھے لیکن کمر کے درد کی وجہ سے شدید تکلیف میں رہتے۔
ہم سے فٹ بال کھیلتے تھے:
8یا 9فروری2002ء کو ہیلی کاپٹر اترا اور ہم میں سے ایک ایک کو نکالنا شروع کر دیا جب میری باری آئی تو مجھے باہر کی طرف کھینچا گیا میرے کپڑے پھٹ گئے اور مجھے ایک گندے پانی سے آلودہ کیچڑ کے گڑھے میں پھینکا گیا جہاں شاید سردی تھی۔ اسی طرح دوسرے بھائیوں کو بھی یہاں پھینکا گیا تھا اور یہاں بہت شدید سردی تھی۔ امریکی وحشی فوجی کبھی تو ہمیں لاتوں اور گھونسوں سے بے دردی کے ساتھ مارتے اور کبھی ہم سے فٹ بال کھیلتے اور کبھی ہمارے اوپر بیٹھ کر گاتے تھے ۔اس حال میں کہ ہم سب کے ہاتھ پیر رسیوں بندھے ہوئے تھے اور ہمارے سروں پر کالے تھیلے پہنائے گئے تھے اور دم گھٹنے کی وجہ سے ہمیں کبھی شدید سردی کم محسوس ہوتی تھی مجھے ہیلی کاپٹر سے نکالتے وقت ان امریکیوں نے گنوں کے بٹ پسلیوں اور رانوں پر کئی طریقے سے مارے ۔ چار پانچ امریکی فوجی اس کے علاوہ میرے اوپر بیک وقت بیٹھے ہوتے تھے ہمارے کپڑوں کو چاقوؤں کے ذریعے پھاڑ دیا گیا تھا اور ہمارے سروں اور ٹانگوں کو وہ وحشتی اتنا روندتے تھے کہ مجھے بھی یقین ہوگیا کہ اب ہمیں یہ وحشی لوگ ذبح کریں گے اور حقیقت تو یہ تھی کہ اتنے شدید اور سخت عذاب کے بدلے ہم لوگ ذبح ہونے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس لیے کہ کوئی بھی انسان اتنی وحشت ناک ذلت اور طرح طرح کا عذاب برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے بعد مجھے ننگا اٹھایا گیا اور اتنا مجھے روندا کہ اتنا شیر بھی مینڈھے کو شکار کرکے نہیں روند سکتا۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
برہنہ تصویریں لی جا رہی تھیں:
تحقیق شروع ہوئی توہر طرف کیمرے آن ہوگئے۔ برہنہ انسانی قیدیوں کی تصاویر لی جانے لگیں۔ ہر طرف سے کیمروں کی لائٹیں لگ رہی تھیں۔ ننگے قیدیوں کی تصویر کشی اور ان سے تحقیقات امریکیوں کے لیے بڑا تماشا تھا۔ میرے سر سے اچانک تھیلا اٹھایا گیا، اُف اللہ کیا وحشت ناک منظر تھا کہ ہم تمام بھائیوں کو ننگا کرکے عذاب دیا جا رہا تھا۔ کوئی کہاں پڑا ہوا، کوئی کہاں روندا ہوا، الٹا ننگا پڑا ہوا تھا۔۔۔اتنا وحشت ناک اور توہین آمیز منظر تھا کہ جسے یہاں میری زبان تعبیر کرنے سے عاجز ہے۔ ننگے مسلمان انسانوں کا (مادر پدر آزاد امریکی فوجی) مرد اور عورتیں تماشہ دیکھ رہے تھے۔
ایک میٹر اونچا کمرہ:
ایک بڑا خیمہ تھا جس میں ڈاکٹر موجود تھے۔ تصویر کشی اور تحقیق کا مرحلہ ختم ہوا تو ڈاکٹروں نے طبی معائنہ کرنا تھا۔ اس کے بعد مجھے دوبارہ یونیفارم پہنچایا گیا اور کھینچتے بھگاتے مجھے ایک جگہ لے گئے اور وہاں پر الٹا منہ کے بل پھینکا میرے ہاتھ اور پیر کھول دیئے اور تھیلا میرے سر سے ہٹا دیا گیا۔ فوجی میرے سر اور پاؤں پر بیٹھے ہوئے تھے اس کے بعد مجھے اٹھنے کا حکم دیا اور میں گردو غبار میں لپٹا ہوا تھا۔ تو دیکھا کہ ایک بڑا کمرہ تھا جس کی چاروں دیواریں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں اور زمین سے تقریباً ایک میٹر اونچا یہ کمرہ مستطیل تھا اور دو میٹر کے فاصلے پر خار دار تار سے اسے ڈھانپا گیا تھا ۔اس میں تقریباً بیس آدمیوں کی گنجائش تھی اور اس کی چھت پر ترپال بچھا ہوا تھا۔ آنکھیں خوب کھولنے کے بعد میں نے دیکھا کہ یہاں پر اس طرح کے کئی کمرے ہیں جو دیگر قیدی بھائیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ڈیوٹی پر مامور فوجی نے مجھے اشارہ سے وہ سامان بتایا جو کمرے کے اندر ہر قیدی کے لیے ہوتا تھا۔
اس میں ایک چادر ، دو ہلکے کمزور بستر، ایک پائجامہ، ایک جوڑا جراب، ایک جوڑا بوٹ اور ایک کیپ۔ میں نے جراب اور پائجامہ پہن لیا اور دونوں بستروں کے اندر لپٹ گیا اس لیے کہ شدید سردی تھی اور مجھ سے پیچھے رہنے والے بھائیوں کو بھی اسی طرح مراحل سے گزار کر یہاں لایا گیا۔ تقریباً صبح سے ایک گھنٹہ قبل ملا محمد صادق کو بھی یہاں لایا گیا وہ صوبہ ارزگان کے بلاغ گاؤں کا باشندہ تھا اور اس وقت چمن میں رہ رہا تھا۔ سابقہ سوویت یونین جہاد میں وہ جہادی کمانڈر اور اس وقت ہمارا امیر تھا۔ اس وقت اس کو شدید سردی لگ رہی تھی اور وہ کانپ رہا تھا۔ میں نے اس کو کپڑے تیار کرکے دیے اور پہننے مں مدد دینا چاہی تو اس نے منع کیا اور کہا کہ آپ مجھے مت دیکھیں میں خود تبدیل کر لوں گا۔
اذان کی آواز بلند ہوئی:
اس نے آس پاس سوئے ہوئے قیدی دیکھے جو بستروں میں لیٹے ہوئے تھے اور انتہائی پریشان ہوئے اور حیران ہو کر مجھ سے کہا کہ کتنی لاشیں پڑی ہیں وہ ان سوئے ہوئے قیدیوں کو مردہ سمجھ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ نہیں یہ تو سوئے ہوئے ہیں تھوڑی دیر بعد کمروں سے بآواز بلند اذانیں شروع ہوئیں۔ ملا صادق بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ابھی توہم دارالاسلام میں آگئے ہیں۔ لیکن امان اللہ بھائی نے یہاں پر کہا کہ یہ کیسی وحشی زندگی ہے کاش کہ ہم مر چکے ہوئے اس لیے کہ یہ وحشت تو کبھی بھولنے کے قابل نہیں۔ سراسر انسانیت کی ذلت اور رسوائی ہے لیکن میں ساتھیوں سے کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بھی بدتر ذلت اور رسوائی سے بچائے۔
قندھار میں تحقیق کا مرحلہ:
صبح ہوئی اور ہم نے نماز پڑھی اس کے بعد ہم نے آرام کرنا چاہا لیکن آرام کے لیے ہمیں نہیں چھوڑا گیا اور تحقیق کا مرحلہ شروع ہوا پہلے عرب بھائیوں کو لے جایا گیا اگرچہ مجھے اس تحقیق کے لیے نہ لے جایا گیا تحقیق کا طریقہ کار بڑا سخت اور تحقیر آمیز ہوا کرتا تھا۔ کمرے کے ایک طرف قیدیوں کو گھٹنوں کے بل کھڑا کرکے بڑی ذلت سے فوجی انہیں کمرے سے باہر کھینچتے تھے اور دوسری جگہ منتقل کرتے تھے جہاں ان سے تحقیق ہوتی تھی اور متعصب فوجی بڑی سختی سے پیش آتے تھے قیدیوں کے سروں کو تھیلے سے ڈھانپا جاتا تھا اور زمین پر انہیں بے دردی کے ساتھ گھسیٹا جاتا تھا کئی مرتبہ میرے گھٹنوں کا گوشت زمین پر رہ جاتا تھا کبھی ہمارے سروں کو دیواروں سے ٹکرایاجاتا تھا جبکہ ہماری حالت یہ ہوتی تھی کہ آنکھیں بند ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔
توہین آمیز مراعات:
صبح کو ہلال احمر کے نمائندے ہمارے پاس آئے اور انہوں نے ہماری بائیو گرافی یا شناخت اپنے پاس رجسٹر میں لکھی۔ ہمیں خط و کتابت کے لیے سفید فارم دیے لیکن ہم بڑی احتیاط اور شک کی نگاہ سے ان سے باتیں کرتے تھے اس لیے کہ ہمیں کافی ڈر تھا کہ شاید یہ بھی امریکی ایجنسی کے لوگ ہیں وہ لوگ ہماری حالت دریافت کرتے تھے۔ وہ ہلال احمر کے لوگ اچھے تھے۔ گھر والوں کے ساتھ خطوط کے ذریعے رابطہ میں بڑا کردار ادا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ طرح طرح کے وعدے کرتے تھے کہ وہ امریکیوں سے تمہارے لیے مراعات منظور کرائیں گے اور اس کے لیے انہوں نے ہمیں مطلوب اشیاء کے کارڈ بھی جاری کیے جس میں روٹی، دوائی، پانی، کتابیں اور زندگی کی دیگر اہم ضروریات درج تھیں۔ جب تک میں قندھار میں تھا آخرمیں انہوں نے چند کہانیوں کی کتابیں، شطرنج اور تین مہینے میں ایک مرتبہ سب کے سامنے ننگا غسل کرنے کی توہین آمیز مراعات دیں۔ ہم بہت ہی زیادہ مذہبی کتابوں، پانی اور انسانی حقوق کی پاسداری چاہتے تھے لیکن ہماری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی۔
چھ ماہ تک ہاتھ منہ دھونے نہیں دیا گیا:
دس فروری2002ء سے جولائی کی ابتداء تک میں قندھار میں تھا۔ اس عرصہ میں مجھے ہاتھ منہ دھونے نہیں دیا گیا اور اگر کبھی دھونے کی ہم کوشش بھی کرتے تو امریکی سخت سزا دیتے تھے اس وجہ سے ڈر کے مارے ہم ہاتھ منہ نہیں دھوتے تھے۔ ایک مرتبہ ہمیں سات سات قیدیوں کو باندھا گیا اور اس جگہ سے چند میٹر کے فاصلے پر بالکل ننگا کرکے کھڑا کیا گیا اور امریکی مرد اور خواتین ہمارے آگے پیچھے کھڑے ہوئے اور ہمیں توہین آمیز غسل کرنے کے ایک عدد صابن اور ایک کوزہ پانی دیا گیا ۔بڑا عجیب خوفناک منظر تھا ہم سب ننگے تھے میں نے ساتھیوں سے بآواز بلند کہا کہ بھائیو! ہم اس پر مکلف نہیں ہیں اس لیے آپ لوگ غسل کریں اور آنکھیں یا تو بند رکھیںیا پھر نیچے رکھیں اورایک دوسرے کو نہ دیکھیں لیکن یہ کہاں تک ہو سکتا تھا یہ پہلا غسل تھا جو قندھار کے ائیرپورٹ پر ہمیں ایک دوسرے کے سامنے ننگا کھڑا کرکے کرایا گیا۔ اس کے بعد اور پہلے نہ تو ہم نے ہاتھ دھوئے اور نہ ہی چہرے پر پانی مارا۔
کوئی تبصرے نہیں