Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

کہ زندگی کرکٹ سے دشوار تر ہے‘: سمیع چوہدری کا کالم

       کولکتہ کے افق پر سرمئی سیاہی تھی۔ فضا پر حبس آلود نمی چھائی تھی۔ مگر آسٹریلوی بولرز کی آنکھوں میں جو چمک تھی، وہ جنوبی افریقی امیدوں ...

 


     کولکتہ کے افق پر سرمئی سیاہی تھی۔ فضا پر حبس آلود نمی چھائی تھی۔ مگر آسٹریلوی بولرز کی آنکھوں میں جو چمک تھی، وہ جنوبی افریقی امیدوں کے دئیے بجھا دینے کو کافی تھی۔  سابق بنگلہ دیشی کپتان مشرفی مرتضیٰ نے کہا تھا کہ اگر زندگی ایک سو منزلہ عمارت ہے تو کرکٹ اس میں سے محض دو منازل ہیں، سب سے بڑا چیلنج زندہ رہنا ہے، کرکٹ تو کچھ بھی نہیں۔  جیرلڈ کوئٹزی جنوبی افریقی کرکٹ کی اس نئی پود میں سے ہیں جو یہی ثابت کرنا چاہتی ہے کہ کرکٹ تو کچھ بھی نہیں، اصل چیلنج ناسازگار حالات میں سر اٹھا کے جینا ہے۔  میچ سے پہلے کوئٹزی نے کہا تھا کہ وہ ’چوکرز‘ کے لیبل کی ذرا پرواہ نہیں کرتے، وہ بس اپنا بہترین کھیل پیش کریں گے، پھر اس کے بعد بھلے کوئی انھیں چوکرز کہتا بھی رہے، انھیں فرق نہیں پڑتا۔  کوئٹزی نے اپنا کہا سچ کر دکھایا۔ سخت ترین دباؤ کے لمحات میں وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک قلیل ہدف کے تعاقب میں سبک خرام آسٹریلوی اننگز کی سانسیں بے ربط کر چھوڑیں۔ تبریز شمسی اور کیشو مہاراج نے بھی ایسا ہی کیا۔  مگر ان کے باقی احباب ایسا نہ کر پائے۔  ایڈن گارڈنز کی یہ پچ بھی استعمال شدہ تھی لیکن وانکھیڈے کے برعکس یہاں باؤنس بہت دھیما تھا۔ یہ پہلے سیمی فائنل کے یکسر برعکس صورت حال تھی کہ بولرز کی بجائے بلے بازوں کا جینا محال تھا۔ یہاں رنز کی برسات نہیں، قال تھا۔  جو لاشعوری دباؤ پروٹیز کو درپیش تھا، ٹاس پر وہ بھی ختم ہو گیا کہ یہاں انھیں دوسری اننگز میں سست تر پچ پر ہدف کے تعاقب کی دشواری سے رہائی مل چکی تھی۔ اس امر سے جنوبی افریقی کیمپ کے اعصاب مطمئن ہو جانا چاہیے تھے مگر ایسا ہو نہ پایا۔  کچھ روز قبل کمنٹری باکس میں مائیک آتھرٹن نے یہ سوال اٹھایا کہ تینوں سیمی فائنلسٹس میں سے کون سی ایسی ٹیم ہو سکتی ہے جو ناقابلِ تسخیر انڈیا کا رستہ روک پائے گی۔ جواب میں شین واٹسن نے آسٹریلیا کا نام لیا کہ آسٹریلوی کرکٹ مشکل ترین حالات سے نبرد آزما ہونے کا ہنر جانتی ہے۔  مچل سٹارک کے لیے یہ ٹورنامنٹ ان کے اپنے بلند معیارات کے مطابق نہیں رہا مگر وہ ایسے کھلاڑی ہیں کہ جب موقع تقاضہ کرے تو اٹھ کھڑے ہونا بھی جانتے ہیں۔ دھرم شالہ میں جب کیوی ٹیم خطیر ہدف کے تعاقب میں عین لبِ بام آ چکی تھی، تب بھی سٹارک ہی نے اس پیش قدمی کا رستہ روکا تھا۔  یہاں بھی سٹارک جب اٹیک کو آئے تو پہلی ہی گیند سے درستی اور مہارت کی وہ تصویر پیش کی جس کے سامنے باوومہ اور ڈی کوک بالکل بے بس دکھائی دئیے۔ فُل لینتھ سے سر ٹکرا کر سوئنگ کھوجنے کی بجائے ان کا مکمل ارتکاز اس ہارڈ لینتھ پر رہا جہاں سے ڈی کوک کے بازو کھلنا ناممکن تھا۔  ناصرف سٹارک اور ہیزل ووڈ نے پروٹیز ٹاپ آرڈر کی جارحیت کا رستہ کاٹا بلکہ آسٹریلوی فیلڈرز نے بھی پہلے پاور پلے میں جان لڑا دی کہ گیند باؤنڈری کی زیارت سے محروم ہی رہے۔  ان سست دھیمی پچز پہ پہلا پاور پلے ہی وہ موقع ہوتا ہے جہاں سے کھیل کی چال طے ہوتی ہے، یہیں سے جیت کے رستے بھی ہموار ہوتے ہیں اور ہار کی ہزیمت بھی دامن گیر ہوا کرتی ہے۔ آسٹریلوی بولنگ اور فیلڈنگ پہلے پاور پلے میں اس قدر زندہ ہوئی کہ پروٹیز کے لیے کرکٹ زندگی سے بھی بڑا پہاڑ ٹھہری۔  گو ایسی تند و تیز ہواؤں میں بھی ایک آسرا تھا کہ اگر پچ پر رکنے کو ترجیح دی جاتی، سکور بورڈ کو سر پر سوار نہ کیا جاتا، وکٹیں بچا لی جاتیں اور دھواں دھار بلے بازی کی بجائے نارمل کرکٹ کھیل لی جاتی تو شاید ڈیوڈ ملر ہی کی طرح ایک دو اور اننگز بھی جنوبی افریقی سکور بورڈ کا کچھ بھرم بنا جاتیں

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ