اُستاد دامن کا یومِ وفات 03 December 1984 استاد دامن کی سب سے بڑی خوبی ان کی فی البدیہہ گوئی تھی۔ خدا نے انہیں ایسے ذہن اور فکر سے نوازا ت...
اُستاد دامن کا یومِ وفات
03 December 1984
استاد دامن کی سب سے بڑی خوبی ان کی فی البدیہہ گوئی تھی۔ خدا نے انہیں ایسے ذہن اور فکر سے نوازا تھا کہ وہ موقع کی مناسبت سے چند لمحوں میں اشعار کی مالا پرو دیتے تھے اور حاضرین کے لیے تسیکن کے ساتھ ساتھ حیرت کے اسباب بھی پیدا کردیتے تھے۔ آزادی کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے دلی میں منعقد مشاعرے میں یہ فی البدیہہ نظم پڑھی-
،،تُسی تے اَسی،،
بھانویں مونہوں نہ کہئے، پر وچو وچی
کھوئے تسی وی او، کھوئے اسی وی آں
ایہناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں
کجھ امید اے، زندگی مل جائے گی
موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں
جیوندی جان ای، موت دے منہ اندر
ڈھوئے تسی وی او، ڈھوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او، سوئے اسیں وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے
روئے تسی وی او، روئے اسیں وی آں
استاد دامن
از:-دامن دے موتی (برقی ص ۱۰۲)
اس نظم کی سماعت پر حاضرین مشاعرہ بے اختیار رونے لگے۔ اس وقت مشاعرے میں پنڈت جواہر لعل نہرو (وزیر اعظم بھارت )بھی موجود تھے، انہوں نے استاد دامن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام فرمائیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اب میرا وطن پاکستان ہے میں لاہور ہی میں رہوں گا بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں
کوئی تبصرے نہیں