اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا مگر جو...
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
عرش صدیقی (مرحوم) ملتان میں انگریزی ادب کے پروفیسر کی حثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہیں. بہت ہی نفیس وضع قطع کے انتہائی ملنسار انسان تھے. اللہ تعالٰی اُن کے درجات بلند فرمائے. آمین.
یہ نظم انہوں نے اپنے بیٹے کے انتقال کے بعد لکھی جو دسمبر میں دنیا سے کنارا کر گیا تھا، اسے یاد کر کے کافی اداس رہنے لگے تھے، اللہ تعالی مغفرت کرے۔آمین
کوئی تبصرے نہیں