Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔دسویں قسط

  سعودی باشندے پر بہیمانہ تشدد: اس دوران افواہ آئی کہ امریکی فوجیوں نے سعودی عرب کے مشعل نامی قیدی کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے...

 


سعودی باشندے پر بہیمانہ تشدد: اس دوران افواہ آئی کہ امریکی فوجیوں نے سعودی عرب کے مشعل نامی قیدی کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے جام شہادت نوش کر لیا یہ۔ اس افواہ سے حالات مزید سنگین ہوگئے۔ اب فوجی بڑے بڑے مضبوط ڈنڈے اٹھائے پھرتے تھے۔ ایسی گاڑیوں کا گشت مختلف کیمپوں میں شروع ہوا جن پر توپیں اور مشین گنیں نصب تھیں۔ عصر کا وقت تھا جب عربی، انگریزی اور اردو میں اعلان ہوا کہ مشعل کی حالت نازک ہے۔ ان کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ اس اعلان سے قیدی بھی خاموش ہوگئے اور اس تجسس میں مبتلا ہوگئے کہ اصل حقیقت کیا ہے؟ اور پھر ہمارا ہم خیال ایک قیدی جو اسپتال سے آیا تھا نے بتایا کہ میں نے مشعل کو دیکھا ہے اس کی حالت واقعی خراب ہے اور پھر دو تین مہینے بعد پتہ چلا کہ مشعل پر فالج کا حملہ ہوگیا ہے اور اس کے تمام اعضاء شل ہوگئے ہیں۔ امریکی فوجیوں نے مشعل کو تشدد کا نشانہ کیوں بنایا تھا اس کا ہمیں آخر تک پتہ نہ چل سکا۔ مشعل نے دو سال چھ مہینے اسپتال میں گزارے ، اس کو وہیل چیئر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا۔ اتنا معذور تھا کہ بغیر کسی سہارے کے نہ کھڑا ہو سکتا تھا اور نہ بیٹھ سکتا تھا۔ آخر میں اسے سعودی حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔

چالیس دن تک سونے نہ دیا: پہلے پہل ہر کیمپ میں کھانے اور پھل وغیرہ کی اچھی خاصی مقدار ملتی تھی۔ پھر ہر کیمپ کے انچارج نے عجیب رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ ہوا یوں کہ ایک فوجی بار بار ہر قیدی کے پاس جاتا اور کھانے کا مینو ، پسند نا پسند اور کمی بیشی کے بارے میں پوچھتا اور ایک نوٹ بک میں تحریر کرتا جاتا۔ نتیجہ اس عجیب کا یہ نکلا کہ کھانے پینے کی جو چیزیں قیدیوں کو پسند نہیں تھیں اس کی مقدار بڑھا دی گئی اور جس چیز کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کیا گیا اس کی مقدار کم کر دی گئی۔ خوراک کی اچھی چیزیں غائب ہوگئیں جبکہ ناکارہ اشیائے خوردنوش میں اضافہ کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ مشکلات بڑھتی گئیں۔ آغاز میں تفتیش یا ریڈ کراس والوں سے ملنے یا ڈاکٹر کے پاس لے جاتے وقت ایک پٹے سے باندھا جاتا جو بعد میں زنجیر میں تبدیل ہوگیا اور پھر زنجیر سے پاؤں اور ہاتھوں کو بھی باندھا جانے لگا۔ ہتھکڑی ایک کی بجائے تین تین پہنائی جانے لگیں۔ پہلے آنکھیں بند نہ کی جاتی تھیں۔ پانچویں کیمپ میں آنکھوں پر پٹی باندھنا اور کانوں میں روئی ٹھونسنا عام سی بات بن گئی تھی۔ پہلے مذہبی کتابوں پر کوئی پابندی نہیں تھی جو بعد میں عائد کر دی گئی۔ اقتصادیات، ریاضی، بیالوجی، سیاست، تاریخ اور جغرافیہ کے موضوع پر مبنی کتابیں بھی بند کر دی گئیں۔ نیند پوری نہ لینے دی جاتی۔ ملا اخوند کو40دن اور40رات تک نیند نہ کرنے دی گئی۔ ان کو سخت سردی میں بھی ائیرکنڈیشنڈ کمرے میں رکھا گیا۔ جنیوا جا کر اپنے حقوق حاصل کرو: فوجی گھی کے خالی کنستر بجاتے تاکہ قیدی سو نہ سکیں۔ قیدیوں کو خصوصاً عرب قیدیوں کو موٹر لانچ میں بٹھا کر فل اسپیڈ کے ساتھ چلائی جاتی۔ رفتہ رفتہ علاج کی سہولتیں کم ہوتی گئیں۔ ڈاکٹر ابتدائی مراحل میں آزاد تھے اور مریض قیدیوں کو دوائیاں بھی دیتے تھے مگر رفتہ رفتہ ان پر بھی پابندیاں عائد ہوگئیں اور قیدیوں پر توجہ بالکل نہ دی جاتی۔ خون کے کینسر میں مبتلا قندھار کے ولی محمد نامی قیدی کی تکلیف سے چیخیں نکل جاتیں مگر اس کے پاس کسی معالج کو نہیں بھیجا گیا نتیجتاً اس کا سارا جسم سوج گیا۔ ہم مجبور ہوگئے کہ اس کے لیے احتجاج شروع کریں۔ ہم نے زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کر دیا اور قید خانے کی آہنی دیواروں کو مار مار کر شور مچانا شروع کر دیا جس سے فوجیوں کے اوسان خطا ہوگئے۔ فوجیوں نے اپنے افسروں کو بلایا۔ ترجمان کو لایا گیا پھر جا کر مریض کو کلینک لے جایا گیا جہاں اس کے مرض(بلڈ کینسر) کی تشخیص کی گئی۔ کینسر نے اس کے جگر کو بھی متاثر کیا تھا۔ اگر ولی محمد کا بروقت علاج ہوتا تو اس کا مرض اتنا نہ بڑھتا۔ ہم کبھی کبھار جنیوا کنونشن کے تحت اپنے حقوق یاد دلاتے تو امریکی فوجی کہتے کہ جنیوا جا کر اپنے حقوق حاصل کر لو، یہ امریکا ہے۔ مریکی فوجیوں کی صدر بش کو گالیاں: ہم سے تفتیش کے دوران کوئی با مقصد جواب نہ پاتے اور تشدد کرکے تھک جاتے تو آخر میں خود اپنے صدر بش کو گالیاں دینا شروع کر دیتے۔ کبھی میڈیا کے لوگ یا حکومتی عہدیدار تماشا دیکھنے آتے تو سارے کیمپوں کا معائنہ کرانے کی بجائے ان کو صرف4th Campکا دورہ کرایا جاتا کیونکہ اس کیمپ کے حالات اچھے تھے۔ا یسے وفود کو دکھانے کے لیے نمائشی جگہیں بنائی گئی تھیں۔ اکثر مریضوں کو دورے کے اوقات میں نشہ دیا جاتا تھا تاکہ وہ سوئے رہیں اور امریکی وحشیانہ سلوک کا بھانڈا نہ پھوڑ سکیں۔ ایک مرتبہ چوتھے کیمپ کے دو قیدیوں نے ایک وفد کے ارکان کو بتایا کہ یہ نمائشی کیمپ ہے آپ اگر حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو پہلے دوسرے، تیسرے، پانچویں اور ایکو کیمپ کے قیدیوں اور مریضوں کا حال دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم انصاف چاہتے ہیں ، ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہمیں عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ پتہ ل گے کہ کتنے بے گناہوں کو دہشت گردی کے کھاتے میں سخت ترین عذاب سے گزارا جا رہا ہے۔ امریکی فوج نے بعد میں شکایت کرنے والے بیس افراد کو سزا کا مستحق قرار دے کر ان کو چوتھے کیمپ سے باہر نکالا اور ساری مراعات اور سہولیات واپس لے لیں۔

بوسنیائی قیدی: گوانتاناموبے میں بوسنیا سے تعلق رکھنے والے شیخ جابر، ابو شیما محمد، مصطفی اور الحاج بھی قید تھے جو بہت ہی مظلوم تھے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ گوانتاناموبے کیوں لایا گیا اور جرم کیا ہے؟ ابو شیما کو تو سزا کے لیے پانچویں کیمپ میں بھی لے جایا گیا۔ شیخ جابر نے مجھے بتایا کہ ہم نے ہر تفتیش کار سے اپنا قصور پوچھا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ بعض کہتے کہ آپ امریکی مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔ ہم ثبوت مانگتے تو کہتے کہ ثبوت ضروری نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ نے ماضی میں کچھ کیا ہو۔ ہو سکتا ہے آپ مستقبل میں امریکی تنصیبات پر حملہ کریں اور امریکیوں کو نقصان پہنچائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پانچوں بوسنیائی بھائیوں نے زندگی میں نہ کبھی افغانستان دیکھا تھا اور نہ کسی تنظیم سے ان کا تعلق تھا۔ ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے سربوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔

دو بے بس حکمران: میں نے بحیثیت افغان سفیر کئی بار اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطہ کیا تھا کہ افغانستان میں طالبان قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا نوٹس لیا جائے اور بے گناہ افراد کو رہا کیا جائے۔ مجھے ہر بار یقین دہانیاں کرائی گئیں ۔ اپنی گرفتاری سے قبل حامد کرزئی اور جنرل پرویز مشرف دونوں سے مسلسل رابطہ رکھا اور ان سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کے شمال میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کو رہا کیا جائے اور ان سے وحشیانہ سلوک کو روکا جائے مگر دونوں بے بس نظر آتے تھے۔ پاکستانی اہلکاروں کا مک مکا: غسان جو عرب تھا، نے بتایا کہ میں اپنے چند ساتھیوں سمیت لاہور کے ایک ہوٹل میں کرائے کے عوض کمرہ لے کر اس انتظارمیں بیٹھا تھا کہ کسی طریقے سے پاکستان سے باہر نکل سکوں۔ پاکستان سے باہر جانا آسان تھا مگر اس کے لیے رقم کی ضرورت تھی جو میرے پاس نہیں تھی۔ باہر بھجوانے کا کام پاکستانی اہلکار باقاعدہ مک مکا کرکے کرتے تھے۔ جب سودا طے نہ ہوا تو انہی اہلکاروں نے چھاپا مار کر گرفتار کر لیا۔ انہوں نے جب چھاپہ مارا تو ہمارے پاس سبزیاں کاٹنے والی چھریاں تھیں جبکہ ان کے پاس بھاری اسلحہ تھا۔ اس کے باوجود ہم نے خوب مزاحمت کی۔ ہماری مزاحمت دیکھ کر اہلکاروں نے کہا کہ ہم آپ کی مدد کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ نہیں آپ کے ساتھ امریکی ہیں اور ہم خود کو امریکا کے حوالے نہیں کریں گے۔ اہلکاروں نے کہا کہ آپ کو امریکا کے حوالے کرنے نہیں بلکہ پوچھ گچھ کرنے کے لیے گرفتار کیا جارہا ہے۔ ہم نے خدا اور رسولﷺ کے واسطے دیئے اور کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور عرب مجاہدین ہیں مگر وہ نہیں مانے۔ محاصرہ کرکے جب انہوں نے ہمیں گرفتار کر لیا تو بااثر دکھائی دینے والے چند افراد آئے اور قسم اٹھا کر کہا کہ ہم لشکر طیبہ کے لوگ ہیں اور آپ کے ساتھی ہیں آپ مزاحمت نہ کریں۔ پھر ان پاکستانی اہلکاروں نے پہلے ہمیں لوٹا اور پھر امریکی فوجیوں کو لایا گیا کہ آئیں دیکھیں۔ ہم کس طرح آپ کے لیے مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکیوں کی تحقیق: ایک دن مجھے تحقیق کے لیے لے جایا گیا ۔کچھ نئے تفتیش کار وہاں آئے ہوئے تھے جن کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک ٹھگنی کالی خاتون بھی ساتھ تھی اور ایک پٹھان ترجمان بھی ساتھ تھا۔ میز پر پینے کا پانی رکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک نقشہ میز پر رکھا جس کی ابتدا افغانستان سے ہوتی ہوئی امارات اور امارات سے سوڈان اور سوڈان سے یورپ اور انتہاء جنوبی امریکا تک پہنچتی تھی۔ مجھ سے کہا گیا کہ اس راستے افغانستان سے سونے کی غیر قانونی تجارت ہوتی رہی ہے اور آپ بھی اس میں شریک تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ افغانستان میں سونے کی کان اور افغانستان کی سونے کی برآمد ثابت کریں تو میں سب کچھ ماننے کے لیے تیار ہوں لیکن وہ بضد تھے اور باربار اصرار کرتے رہے کہ آپ اس دھندے میں (جس کا کوئی وجود نہیں) شامل تھے۔ ان کا ایک اور سوال یہ تھا کہ آپ ہر مہینے پشاور کس لیے جاتے تھے؟ یہ تفتیش کار خصوصی طور پر امریکا سے گوانتاناموبے آئے تھے لیکن بڑے بے عقل تھے جو مثبت و منفی سوال میں فرق تک نہیں کر سکتے تھے اور یا تو پھر وہ ہمیں بے وقوف اور بچے سمجھتے تھے اس لیے اس طرح کے بے ربط سوالات کرتے تھے۔ مجھ سے افغانستان کی تمام سیاسی مذہبی تنظیموں، معدنیات جیسے تیل، گیس ، کرومائیٹ، سنگ مرمر، ہیرے اور جواہرات نیز تمام دارس اور علما کے بارے میں پوچھا گیا۔ اسی طرح میرے سامنے مختلف ممالک میں علماء کی مجالس کی تصویریں لائی گئیں جس میں صد سالہ دارالعلوم دیو بند کانفرنس، پشاور میں قطبیہ کا جلسہ منصورہ میں اور لیبیا میں علماء کرام کے اتحاد اور جلسہ کی تصاویر نمایاں تھیں۔ مجھ سے ان تصویروں میں دکھائے گئے مقررین اور دیگر شریک علماء کے متعلق الگ الگ پوچھا گیا ۔ان میں ایسے مدارس اور علماء بڑی تعداد میں موجود تھے جن کو میں نے کبھی نہ دیکھا نہ سنا اور نہ ہی ان مدارس کا نام معلوم تھا۔ یورینیم کی افزودگی کا سوال بھی بار بار مجھ سے کیا جاتا رہا۔


کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ