Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

چٹان عورتوں کی زنانہ وار تحریک: عاصمہ شیرازی کا کالم

  اچانک کچھ نہیں ہوتا۔ زلزلہ آنے سے پہلے زمین کے نیچے بچھی لکیریں کروٹ لیتی ہیں، چٹانوں سے سرکتے پتھر کبھی یونہی نہیں جگہ چھوڑتے، یہ خبر دیت...

 



اچانک کچھ نہیں ہوتا۔ زلزلہ آنے سے پہلے زمین کے نیچے بچھی لکیریں کروٹ لیتی ہیں، چٹانوں سے سرکتے پتھر کبھی یونہی نہیں جگہ چھوڑتے، یہ خبر دیتے ہیں مگر ہم

   سُن نہیں پاتے، آتش فشاں پھٹنے سے پہلے لاوے کا اُبال برداشت کرتے ہیں اور سہہ نہیں پاتے تو پھٹ جاتے ہیں۔  میلوں سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچنے والی بلوچ بیٹیوں نے کس طرح گھر چھوڑ کر دربدر ہونے کا فیصلہ کیا ہوگا؟ کیا وجہ ہوئی کہ سرد راتوں اور دشوار گزار راستوں سے اسلام آباد کے ایوانوں کے سامنے ایستادہ ہوئیں، کوئی تو وجہ ہوئی ہو گی کہ انھوں نے پہاڑوں پہ چڑھنے کی بجائے ریاست کی طرف دیکھا ہو گا۔  ماہ رنگ بلوچ سے نہ عوام ناآشنا ہیں اور نہ سمی دین بلوچ اب غیر معروف رہی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے اپنے پیارے ڈھونڈتی یہ بچیاں اب حوصلہ کھو چکی ہیں۔ اسلام آباد میں لگے کیمپ میں بیٹھا ایک ایک شخص ایک کہانی ہے یہ سب لوگ کہانیاں ہیں۔  یہ سب اسلام آباد کو اپنی کہانیاں سُنانے آئے ہیں، کسی کا باپ موجود نہیں تو کسی کا بیٹا غائب، کوئی اپنے طالبعلم بیٹے کے لاپتہ ہونے کا بتا رہا ہے تو کوئی اپنے والد کی گمشدگی کی پکار لگا رہا ہے۔ ان کے ستائے ہوئے چہرے اور تلخ لہجے پتہ دے رہے ہیں کہ اب کی بار اسلام آباد نے ان کی بات نہ سُنی تو یہ دکھ دل میں نہیں دبائیں گے، یہ چٹانیں اب لاوے کا بوجھ برداشت نہ کر پائیں گی۔  یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے پیارے کہاں ہیں؟ سب زیرِ زمین ہیں یا آسمان نے ان کو پناہ دی ہے کوئی نہیں جانتا اور جو جانتے ہیں وہ انھیں بتا نہیں سکتے یا بتانے کی جرات نہیں کرتے۔  دسمبر کی سرد رات کے نصف میں ویمن پولیس سٹیشن میں میری موجودگی میں ارباب اختیار سے ماہ رنگ یہ سوال بار بار اُٹھا رہی تھی کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ کیوں ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ ہم اپنا حق ہی تو مانگ رہے ہیں، آپ ہماری بات تو سُنیے۔ کیا ہم اس سلوک کے مستحق ہیں؟  ماہ رنگ کے ان چھوٹے چھوٹے مگر سخت سوالوں کا جواب کسی کے پاس کیا ہوتا اُلٹا جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا وہ ناقابل فہم بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔  یوں تو بلوچستان گذشتہ کئی دہائیوں سے شورش زدہ ہے لیکن پچھلے چند سالوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین تر ہو چکا ہے۔ حالیہ جاری تحریک یوں تیز ہوئی جب بلوچ طالبعلموں کو مبینہ طور پر اٹھایا گیا اور بائیس برس کے بالاچ مولا بخش کو لاش کی صورت لوٹایا گیا۔  پولیس کا موقف ہے کہ بالاچ زیر حراست تھا مگر عسکریت پسندوں کے حملے میں مارا گیا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں اس طرح کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ بلوچ طالبعلموں کو ہی کیوں اُٹھا لیا جاتا ہے۔ علم کے طالبوں سے خوف کیسا؟ بہر حال اگر شکایت ہے تو گرفتار کیا جائے، عدالتوں کے روبرو پیش کیا جائے نہ کہ اُنھیں غائب کر دیا جائے۔ بھلا کبھی آواز بھی قتل ہوئی ہے، کبھی سوچ بھی اغواء کی جا سکی ہے یا کبھی خیال کو زنجیریں پہنائی گئی ہیں؟  مظاہرین زیر حراست طالبعلموں اور مظاہرین کی رہائی چاہتے ہیں، عدالت کے روبرو دو درجن کے قریب طالبعلموں کی گمشدگی کا پتہ لگانے کی خبر دی گئی ہے جبکہ نصف تا حال لاپتہ ہیں۔ کیا ریاست اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ وہ ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے  بلوچستان کی حالیہ تحریک کو سمجھنا ہو گا، گذشتہ تحاریک سے یہ تحریک قطعی مختلف اور یکسر جُدا ہے۔ اس بار یہ تحریک یوں بھی مختلف ہے کہ راہبر عورتیں ہیں، یہ زنانہ وار لڑائی کا آغاز ہے، بلوچستان میں حق دو تحریک کے بعد یہ نیا پہلو سامنے آیا ہے۔  یہ سمجھنا ہو گا کہ حق دو تحریک کی مائی زینب ہو یا ماہ رنگ بلوچ اور سمی یہ سب عورتیں بدلے ہوئے بلوچستان کا پتا دے رہی ہیں جس کا اندازہ نہیں لگایا جا رہا۔ یہ عورتیں مردوں کی حفاظت بن گئی ہیں۔  اب بھی وقت ہے کہ ریاست ان کو اپنی طاقت بنائے اور طاقت کا استعمال نہ کرے۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جائے۔ طاقت کے ہتھیار کی بجائے وقت کے تقاضے کو سمجھ کر چلنے میں ہی بہتری ہے اور اس وقت ریاست کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ