Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 33

  چند منٹوں بعد میں نے کسی کو کنویں میں بھٹو صاحب کے جسم کو ہلاتے ہوئے دیکھا۔ میں نے چودھری یار محمد ‘ جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے‘ سے پ...

 


چند منٹوں بعد میں نے کسی کو کنویں میں بھٹو صاحب کے جسم کو ہلاتے ہوئے دیکھا۔ میں نے چودھری یار محمد ‘ جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے‘ سے پوچھا کہ کنویں میں بھٹو صاحب کی لاش کے ساتھ کون ہے؟ ان کی بجائے مجھے آئی جی پریزن( IG Prisons ) نے بتایا کہ وہ تارا مسیح ہے اور ہاتھوں اور ٹانگوں کو سیدھا کر رہا ہے تاکہ تشنج کی وجہ سے ان کا جسم ٹیڑھا نہ ہو جائے۔ (جب میں پچھلی شام آئی جی جیل خانہ جات اورجیل سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ ان کے جیل دفتر میں بیٹھا تھا تو کسی اسسٹنٹ نے بتایا تھا کہ بھٹو صاحب نے کہا ہے کہ ان کی پھانسی کے بعد ان کی گھڑی اس وقت کے سنتری کو دیدی جائے۔ اس پر اچھی خاصی بحث چل نکلی تھی۔

انجن میں معمولی شعلہ اٹھا تھا اس کو بند کر دیا گیا ہے اور ہم انشاء اللہ جلد بحفاظت راولپنڈی محفوظ طریقے سے پہنچ جائیں گے۔ ہم واپس چکلالہ ائیر بیس پر بخیریت اترے‘ ورنہ ہماری قوم کو ایک کبھی نہ حل ہونے والے ہوائی حادثہ سے دو چار ہونا پڑتا اور بے شمار قصے اور افسانے بیان ہوتے رہتے اور آج میں اس بیان کو یوں سچ سچ لکھ کر قوم تک نہ پہنچا سکتا۔
چکلالہ پی اے ایف بیس پر دوسرا سی130 طیارہ ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ بھٹو صاحب کا تابوت وغیرہ اس میں سوار کر کے ہم نے دوبارہ جیکب آباد کیلئے اڑان شروع کی۔ ہم چار اپریل کی صبح سات بجے سے چند منٹ پہلے جیکب آباد کے ہوائی اڈے پر اترے‘ جہاں ایک ہیلی کاپٹر انتظار میں تھا۔ ائیر سٹرپ پر ہی 7 پنجاب رجمنٹ کے کمانڈنگ آفسر لیفٹیننٹ کرنل محمد صادق نے مجھ سے بھٹو صاحب کا تابوت وصول کیا اور ہیلی کاپٹر میں رکھوا کر ساڑھے سات بجے صبح نوڈیرو کیلئے روانہ ہوئے۔ گڑھی خدا بخش میں بھٹو صاحب کی قبر کھودی جا چکی تھی‘ جس میں انہیں دفنا دیا گیا۔

حکم کے مطابق بھٹو صاحب کو4/3اپریل1979ء کی درمیانی شب کو دو بجے‘ انسپکٹرجنرل جیل خانہ جات کی موجودگی میں پھانسی لگانی تھی۔ انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات چودھری نظیر اختر راولپنڈی جیل میں 3 اپریل صبح سے حاضر تھے‘ جبکہ وہ یکم اپریل شام سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب کی لمبی بھوک ہڑتال ‘ جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے‘ کی وجہ سے ان کی جسمانی حالت دیکھ کر ایک سٹریچرکا بھی بندوبست کرلیا گیا تھا کہ اگر وہ پھانسی گھاٹ تک چل کر نہ جا سکے تو ان کو اس پر لے جایا جائے گا۔ چند ایک پیٹرو میکسس کا بھی بندوبست کر لیا گیا کیونکہ اس رات آسمان پر کافی بادل موجود تھے اور رات اچھی خاصی اندھیری تھی۔ مندرجہ ذیل افسران رات ایک بج کر پینتیس منٹ پر سیکیورٹی وارڈ گئے۔
ا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل چودھری یار محمد
ب۔ کمانڈر سیکیورٹی فورس لیفٹیننٹ کرنل رفیع الدین
ج۔ مجسٹریٹ درجہ اوّل ڈسٹرکٹ کورٹ راولپنڈی مسٹر بشیر احمد خان
د۔ راولپنڈی جیل ڈاکٹر صغیر حسین شاہ
ر۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل خواجہ غلام رسول
جبکہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹس جیل مجید احمد قریشی‘ کاظم حسین بلوچ‘ محابت خان اور سپرنٹنڈنٹ جیل کے چناؤ کے مطابق چند وارڈز بھی سیکیورٹی وارڈکے دالان تک مندرجہ بالاپارٹی(ا.....ر)کے پیچھے پیچھے گئے۔ انسپکٹرجنرل جیل خانہ جات چودھری نظیر اختر دفتر سے سیدھے موت کے کنویں کی طرف ہی چلے گئے۔ سیکیورٹی وارڈ‘ پھانسی گھاٹ اور ان کے درمیانی راستہ پر فوج کی فالتو گارڈ بھی متعین کر دی گئی تھی۔

سمجھ پایا۔ میں ان کے چہرے پر پوری طرح جھک گیا اور پھر ان سے کہا۔ معاف کیجئے گا میں آپ کو سمجھ نہیں سکا۔
وہ بے حد کمزوری اور وقفے وقفے کے ساتھ بولے۔
" I.......Pity......My......wife......left"
(مجھے........افسوس..........ہے ............میری............بیوی............چلی گئی.............ہے)
وہ بے حد پر اضطراراوردلسوز حالت تھے۔ میں بھٹو صاحب کے جواب کے ساتھ خاموش ہو گیا۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ وہ چل نہیں سکتے مگریہ بھی نہیں چاہتے کہ انہیں اٹھا کر لے جایا جائے‘ شاید وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ اگر ان کی بیوی موجود ہوتی تو وہ انہیں سہارا دے کر لے جاتی۔
میں ان کے اس جواب پر بالکل شل اور بے حس ہو گیا۔
مجسٹریٹ نے دوبارہ آگے بڑھ کر ان سے پوچھا کہ آ پ وصیت کرنا چاہتے ہیں۔ بھٹو صاحب خاموش رہے۔ مجسٹریٹ نے دوبارہ پوچھا کہ کیا آپ وصیت لکھوانا چاہیں گے ۔ انہوں نے جواب دیا
"Yes....I....would.....like......to.....dictate.
ہاں........میں..........لکھوانا...........چاہوں گا۔
اس لمحے وقت ختم ہو چکا تھا اور جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہیڈ وارڈر کو حکم دیا کہ وہ اپنے آدمی اندر لائے اورمسٹر بھٹو کو اٹھالیں۔ چار وارڈر اندر داخل ہوئے اور دو نے بھٹو صاحب کے بازو اور دو نے ان کے پاؤں اور ٹانگیں پکڑ کر ان کو اوپر اٹھا لیاجب ان کو اٹھایا جا رہا تھاتو انہوں نے کہا۔

کہنا چاہتے ہوں کہ یہ مجھے تکلیف دے رہی ہے۔ میں ان کے بالکل نزدیک تھا یعنی میں تختے سے بچتے ہوئے آ گے ان کی طرف اتنا جھکاہوا تھا کہ ان کے منہ اور میرے کانوں میں ایک‘ دو فٹ کا فاصلہ ہوگا مگر میں ان کی یہ آ خری بات پوری نہ سن سکا۔

ٹھیک دو بج کر چار منٹ پر ‘ چار اپریل1979ء کو جلاد نے لیور دبایا اور بھٹو صاحب ایک جھٹکے کے ساتھ پھانسی کے کنویں میں گر پڑے۔ میں اوپر سے سیڑھیوں کے ذریعے اتر کر کنویں کے کھلے رخ کنویں کے نیچے گیا اور دیکھا کہ بھٹو صاحب کا جسم معمولی ہل رہا تھا جو اوپر سے نیچے گرنے کی وجہ سے تھا لیکن وہ اس وقت مردہ حالت میں تھے۔
میں انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے پاس ان کرسیوں پر آکر بیٹھ گیا جو لٹکی ہوئی لاش کے سامنے رکھی ہوئی تھیں۔میں نے دیکھا کہ بھٹو صاحب کا سر ان کی گردن پر بائیں طرف جھک گیا تھا کیونکہ پھانسی کے پھندے کا رسا ان کی دائیں طرف سے اوپر گیا ہوا تھا۔
بھٹو صاحب کی لاش کا اس طرح لٹکنا میرے لئے ایک نہ بھلا سکنے ولا منظر ہے۔ میں آ ج تک جب بھی اس کا تصوّر کرتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔(جاری ہے)


کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ