Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 34

  بھٹو صاحب کی پھانسی کی خبر کو کس طرح مخفی رکھا گیا: جب کبھی بھٹو بیگمات جیل میں بھٹو صاحب سے ملنے آئیں تو عموماً بہت سارے ملکی اور غیر ملک...

 


بھٹو صاحب کی پھانسی کی خبر کو کس طرح مخفی رکھا گیا: جب کبھی بھٹو بیگمات جیل میں بھٹو صاحب سے ملنے آئیں تو عموماً بہت سارے ملکی اور غیر ملکی اخبارنویس‘ ریڈیو اور ٹیلیویژن کے نمائندے جیل کے گیٹ پراکٹھے ہو جایا کرتے تھے۔ اسی اثنا میں بی بی سی اور ایک دو دوسری غیر ملکی ٹیلیویژن ٹیمیں جیل کی فلم بنانے بھی آئی تھیں۔ مجھے متنبہ کیا گیا کہ اس قسم کی ٹیلیویژن فلمیں جیل پر ریڈ حملہ( Raid ) کرنے کیلئے بے حد کار آمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس لئے ان ٹیلیویژن ٹیموں کو جیل کے نزدیک نہ آ نے دیا گیا۔ 
پاکستان میں اس وقت بی بی سی کا نمائندہ ‘ مارک ٹیلی بے حد دوڑ دھوپ کر رہا تھا کہ اندر کی خبریں دستیاب ہو سکیں لیکن ہماری انٹیلی جنس اور سیکیورٹی خاصی چوکس اور چوکنا کر دی گئی تھیں صرف وہی خبریں میڈیا کو ملتی رہیں جو بھٹو بیگمات اور وکلا وغیرہ ان کو دیتے رہے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کی خبر کو چھپانے کیلئے جو احتیاطیں اختیار کی گئی تھیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

تفصیلاً بتایا کہ پاکستان کو حاصل کرنے کا مقصد کیا تھا اور پھر فرمایا کہ جب تک ہم نظامِ مصطفی ؐکو صحیح معنوں میں رائج نہیں کریں گے ہم اس عظیم مقصد کو حاصل نہ کر پائیں گے۔ ان کی تفصیل سننے کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ جناب اسلامی نظام کو رائج کرنے میں ان کے خیال میں کتنا وقت درکار ہو گا؟ چونکہ جنرل ضیاء صاحب کو مارشل لاء لگائے ہوئے اور پھر اسلامی نظام رائج کرنے کے متعلق بیانات دیتے ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا۔ ادھر ہر محب وطن یہی چاہتا تھا کہ وعدہ کے مطابق الیکشن جلد از جلد ہوں اور اگر نظامِ مصطفی ؐ کا بھی آغاز ہو جائے تو کیابات! جنرل صاحب نے جواباً فرمایا کہ اس نظام کو رائج کرنے میں انہیں کچھ وقت درکار ہو گا۔ میں اس رات جنرل صاحب کے ساتھ اپنے پورے اعتقاد اور یقین کے ساتھ گفتگو کرتا رہا تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ جناب اگر آپ نے اپنی پوری طاقت اور ایمان کے ساتھ اس کام کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچایا تو اسلامی نظام بھی ڈیمو کریسی‘ ڈکٹیٹر شپ اور سوشل ازم جو بالترتیب قائد اعظمؒ فیلڈ مارشل اور بھٹو صاحب کے بعد فیل ہو گئے تھے‘ ناکام کہا جائے گا‘ میں نے ان سے کہا کہ اگر اسلامی نظام بھی بے دلی سے محض سیاسی نعرہ بازی کے طور پر رائج کرنے کی کوشش کی گئی تو خدا نہ کرے‘ دنیا کہے گی کہ یہ بھی دوسرے نظاموں کی طرح اپنی افادیت کھو چکا ہے اور پھر کمیونزم اور لادینیت کو کوئی روک نہ سکے گا۔ انہوں نے مجھے پھر بڑے غور سے دیکھا اورچند لمحوں بعد اپنے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا‘ رفیع فکر نہ کیجئے‘ ایسا ہر گز نہ ہو گا۔

ہیں۔
افطار ڈنر کے بعد دوسرے کمانڈنگ افسران کے ساتھ میں نے بھی اجازت لی‘ جنرل صاحب نے میرے ساتھ بڑی گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کیا۔ میرے گھر پہنچنے کے تیس‘ چالیس منٹ بعد مجھے صدر صاحب کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر ظفر(مرحوم) نے ٹیلیفون کیا اور بتایا کہ صدر ضیاء الحق صاحب دو دنوں میں عمرہ ادا کرنے سعودی عرب تشریف لے جا رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ(کرنل رفیع الدین)بھی ان کے ساتھ جائیں‘ اس لئے مجھے انہوں نے کہا کہ میں اپنا پاسپورٹ اگلی صبح فارن آفس اسلام آباد پہنچا دوں۔ّ(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ