Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

بلا بلا ڈالا ڈالا حال ہمارا جانے ہے: وسعت اللہ خان کا کالم

    اگر پولٹیکل ہرڈل ریس (رکاوٹوں والی دوڑ) کی عالمی چیمپیئن شپ ہر چار برس بعد منعقد ہو تو اس میں پاکستان کا وہی مقام ہو گا جو فٹ بال میں ار...

 

 





اگر پولٹیکل ہرڈل ریس (رکاوٹوں والی دوڑ) کی عالمی چیمپیئن شپ ہر چار برس بعد منعقد ہو تو اس میں پاکستان کا وہی مقام ہو گا جو فٹ بال میں ارجنٹینا، کرکٹ میں آسٹریلیا، ہاکی میں جرمنی اور رگبی میں جنوبی افریقہ کا ہے۔


اس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو سب سے پہلے خود کو منتظم کے دفتر میں رجسٹر کروانا پڑتا ہے۔ انھیں قواعد و ضوابط کا ایک کتابچہ تھمایا جاتا ہے۔ اس کتابچے میں حلف نامے کا فارم بھی ہوتا ہے۔


’میں نے ٹورنامنٹ ہذا کے تمام قواعد و ضوابط شق وار دھیان سے پڑھ لیے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط میں منتظمین جب چاہیں ترمیم و اضافہ کا مکمل حق رکھتے ہیں۔ میں ان قواعد و ضوابط پر خلوصِ نیت کے ساتھ عمل پیرا رہوں گا۔ مقابلہ جیتنے کے لیے کسی مسکن یا طاقت بخش ممنوعہ دوا کا استعمال نہیں کروں گا۔‘


’نامزد امپائر، پینل آف ایمپائرز، جج یا پینل آف ججز کے ہر فیصلے کو مکمل طور پر تسلیم کروں گا اور اس بابت براہِ راست و بلاواسطہ کوئی ایسا تبصرہ، اشارہ، تحریر و بیان دینے یا جاری کرنے سے گریز کروں گا کہ جس سے ٹورنامنٹ یا اس کے منتظمین کی بابت کوئی منفی تاثر جنم لے۔ خدا میرا حامی و ناصر ہو۔‘


اس ہرڈل ریس کے کوالیفائنگ راؤنڈز کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں منعقد ہوتے ہیں اور پوائٹس پر کامیاب ہونے والے کھلاڑی بالآخر اسلام آباد سپورٹس کمپلیکس کے آخری اور فیصلہ کن راؤنڈ میں حصہ لینے کے اہل قرار پاتے ہیں۔


ہر بار رکاوٹیں بدل دی جاتی ہیں یا آگے پیچھے کر دی جاتی ہیں تاکہ کھلاڑی گذشتہ رکاوٹوں کو عبور کرنے کی مشق کر کے آنے کے بجائے نئے چیلنجز کا سامنا کریں۔ یوں میرٹ پر سب کھلاڑیوں کو جیتنے کے یکساں مواقع مل سکیں۔


مثلاً گذشتہ دوڑ بلکہ ’ادواڑ‘ میں گریجویشن کی شرط، نیب، باسٹھ تریسٹھ کے تحت صداقت و امانت کی سند، پارٹی لیڈر اور پارلیمانی لیڈر میں فرق، بلیک لا ڈکشنری سے اخذ کردہ ایمان داری کے مطالب، نوے دن میں انتخابات کی آئینی شرط کو ایک سو نوے دن کی چیونگم میں تبدیل کرنے جیسی رکاوٹیں شامل ہوتی رہیں۔


اس بار کی ہرڈل ریس کو مزید دلچسپ و چیلنجنگ بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات کو قومی انتخابات میں حصہ لینے سے نتھی کر دیا گیا۔


اس شق پر مکمل عمل درآمد کا اختیار اس الیکشن کمیشن کے پاس ہے جو اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد نوے دن کے اندر اندر انتخابی عمل مکمل کروانے کی لازمی شرط ایک برس میں تین بار اولانگھنے کے باوجود سرخرو چل رہا ہے۔


محمد بوٹا پردیسی اور اس کی تائی سمیت پچیس کروڑ پاکستانی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں انتخابی عمل کا معیار کیا ہے۔ سوائے جماعتِ اسلامی کے کوئی جماعت ایسی نہیں جہاں ایک مقررہ مدت مکمل ہوتے ہی پارٹی انتخابات ہوتے ہوں


باقی جماعتوں میں قیادت ایسے ہی چنی جاتی ہے جیسے شمالی کوریا میں ورکرز پارٹی کی قیادت کا چناؤ ہوتا ہے یا مصر اور شام میں صدارتی انتخابات یا میانمار میں حکمراں جماعت کے اندرونی انتخابات ہوتے ہیں۔


اس کے باوجود کل سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ الیکشن کمیشن نے کسی بھی جماعت کو اس بنیاد پر عام انتخابات میں حصہ لینے سے روکا ہو کہ اس کا مالیاتی یا اندورنی انتخابی نظام گڑ بڑ ہے۔ عام طور پر رسمی تادیبی کارروائی کا عمل مکمل کرنے کے بعد انتخابی نشان الاٹ کیا جاتا رہا ہے۔


مثلاً عوامی نیشنل پارٹی کو پابند کیا گیا کہ وہ مئی تک اپنے اندرونی انتخابات کا مرحلہ مکمل کر لے اور اب تک پارٹی انتخابات نہ کروانے کی پاداش میں کمیشن نے اس پر بیس ہزار روپیہ جرمانہ عائد کر کے لالٹین بطور انتخابی نشان الاٹ کر دی۔


سپریم کورٹ نے قانونی و تکنیکی شواہد کی روشنی میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ الٹ کر الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کا بلا چھیننے کے فیصلے کی توثیق بالکل درست کی۔ مگر اسی سپریم کورٹ نے کچھ روز پہلے تک اپنے ہی سابقہ و حالیہ برادر ججوں کے گذشتہ فیصلوں پر خود ہی سوالیہ نشان بھی ڈالا اور انھیں بدلا بھی۔


اسی سپریم کورٹ میں انھی ہائی کورٹس کے جج ترقی پا کے مسند سنبھالتے ہیں کہ جن کے فیصلے سپریم کورٹ معطل کر دیتا ہے۔







کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ