Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے / مرزا غالب

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر وہ ...

 




 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے


ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر

وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے


نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے


بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے


مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے


ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی

پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے


ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے


محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے


کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے




مرزا غالب

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ