Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا احمد فراز

  میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا  قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا  تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے  میں کہ ...

 


میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا 

قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا 


تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے 

میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا 


میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا 

جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا 


شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر 

میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا 


تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن 

مجھ سے تنہا کے مقابل ترا لشکر نکلا 


میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ 

ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا


احمد فراز

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ