Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

آٹھ فروری کو بوتل ہی ٹوٹ گئی: وسعت اللہ خان کا کالم

  نیا کیا ہو رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ کچھ ہوگا؟ کچھ ہوا بھی تو ہم سے پوچھ کے تھوڑی ہوگا۔ دسمبر 1970 میں نہ فارم 45 تھا نہ فارم 47 کا ٹنٹا۔ بڑے...

 


نیا کیا ہو رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ کچھ ہوگا؟ کچھ ہوا بھی تو ہم سے پوچھ کے تھوڑی ہوگا۔ دسمبر 1970 میں نہ فارم 45 تھا نہ فارم 47 کا ٹنٹا۔ بڑے پیمانے پر دھاندلی کی بھی شکایات نہیں موصول ہوئیں۔ پھر بھی واضح طور پر سب سے بڑی اکثریتی جماعت (عوامی لیگ) کو انتقالِ اقتدار نہ ہوا چنانچہ متحدہ پاکستان کا انتقال ہو گیا۔ ستتر میں پہلی بار کسی فوجی ڈکٹیٹر کے بجائے منتحب سویلین حکومت نے انتخابات کروائے۔ حالانکہ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی باآسانی جیت سکتی تھی مگر انھیں جانے کس نے مشورہ دے ڈالا کہ آپ بلامقابلہ منتخب ہوں گے تو یہ پیغام جائے گا کہ آپ کتنے عظیم لیڈر ہیں۔ لاڑکانہ سے ان کے مدِمقابل پی این اے کے امیدوار جان محمد عباسی کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے سے روکنے کے لئے پولیس نے انھیں اغوا کر لیا اور بھٹو صاحب کی مثال پر عمل کرتے ہوئے پنجاب اور سندھ کے وزراِ اعلی سمیت پیپلز پارٹی کے لگ بھگ سولہ امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ یوں ستتر کے انتخابات پر پولنگ سے پہلے ہی سوالیہ نشان لگ گیا۔

سونے پر سہاگہ سات مارچ 1977 کو قومی اسمبلی کی پولنگ کے روز ہوا جب پیپلز پارٹی دو سو جنرل نشستوں میں سے 155 لے اڑی اور نو جماعتی اتحاد پی این اے کو صرف 36 سیٹیں ملیں۔ کئی جگہ تو جوش میں پچاسی سے نوے فیصد تک ووٹ ڈل گئے۔

جب میاں صاحب کی دوسری حکومت کو پرویز مشرف نے چلتا کر دیا تو پیپلز پارٹی نے جمہوری عمل کو بار بار پٹڑی سے اتارنے اور خود بھی زخم پر زخم کھانے کے باوجود ایک اور سویلین حکومت کی جبری رخصتی پر خوشی کا اظہار کیا۔ پھر بھی نئے بے مروت فوجی ڈکٹیٹر نے دونوں رہنماؤں کو ملک سے باہر رکھنے کے انتظامات کر دئیے اور ایک اور کنگز پارٹی (مسلم لیگ ق) کو الیکشن رچا کے باگ ڈور تھما دی۔ جانے اسٹیبلشمنٹ کو کس فقیر کی بد دعا ہے کہ وہ جس پر بھی ہاتھ رکھتی ہے پھر اسی کی دشمن ہو جاتی ہے۔ اور جس پر ہاتھ رکھا جاتا ہے اقتدار میں لائے جانے کے کچھ عرصے بعد ہی اس پر بھی کوئی جن چڑھ جاتا ہے اور وہ خود کو گروم کرنے والے ہاتھوں کو ہی کاٹ کھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بھٹو صاحب سے عمران خان تک ایک ہی کہانی ہے۔ نہیں بدلا تو بادشاہ گروں کا اسکرپٹ نہیں بدلا۔ ہر بار بیلٹ بکس میں ووٹ پڑتے ضرور دیکھا جا سکتا ہے مگر جب ڈبہ کھلتا ہے تو کبھی دستانہ برآمد ہوتا ہے تو کبھی بوٹ۔ بس ووٹ ہی نہیں نکلتا۔ ووٹر نے پہلی بار موقع ملنے پر انیس سو ستر میں من مانی کی کوشش کی اور سسٹم کو بھرپور دولتی جھاڑ دی۔ چنانچہ بد تمیز و نا سمجھ ووٹر کو قابو میں رکھنے کے لئے مینیجمنٹ سسٹم تیار کیا گیا۔ بد تمیز و نا سمجھ ووٹر کو قابو میں رکھنے کے لئے مینیجمنٹ سسٹم تیار کیا گیا،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES ،تصویر کا کیپشن 09 فروری 2024 کو پاکستان الیکشن کمیشن کے صدر دفتر اسلام آباد میں افسران اور لوگ عام انتخابات کے نتائج والے بل بورڈ کو دیکھ رہے ہیں ستر کے بعد ووٹر نے دوسری بار آٹھ فروری کو رٹا رٹایا سبق ایک جانب پھینکتے ہوئے پھر رسی تڑانے کی کوشش کی۔ فی الحال پورا نظام اس رسی پر جھول رہا ہے اور نیچے گہری کھائی ہے۔ وہ دن گئے جب اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے درمیان سیاسی معاملات میں مسلسل مداخلت کے سوال پر جھگڑا تھا۔ اب لگ بھگ سب نے ہی سیاست میں فوج کے مستقل کردار کو ایک تلخ حقیقت سمجھ کے حلق سے اتار لیا ہے۔ جھگڑا بس اتنا بچا ہے کہ ظلِ سبحانی: جب ہم بار بار آپ کے جوتے کھانے کے باوجود مسلسل سیوا کر رہے ہیں تو ایک آؤٹ سائیڈر (عمران خان) کو محلِ سرا کا راستہ دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ جبکہ عمران خان کا فوجی قیادت سے محض اس نکتے پر جھگڑا شروع ہوا کہ جب میں آپ کے قدم بہ قدم سعادت مندی سے چل رہا تھا تو پھر انہی کے ہاتھوں مجھے کیوں رسوا کیا جن کو میں آپ کے کہنے پر چور اور ڈاکو کہتا رہا۔ ستر کا پہلا الیکشن آدھا ملک لے گیا جبکہ بارہویں انتخاب نے الیکشن کمیشن سمیت ہر ادارے پر یقین کی آخری بوتل بھی توڑ دی اور جن نکل بھاگا۔ اب یہ جن کن کن کو روپ بدل بدل کے ڈراتا ہے؟ بس دیکھتے جائیے۔ متعلقہ عنوانات








کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ