اس کتاب میں زیادہ تر علامتی اور تجریدی افسانے ہیں اور آخر میں کچھ بیانیہ یا نیم بیانیہ افسانے بھی ہیں۔ جہاں تک افسانچوں کا تعلق ہے یا اخت...
اس کتاب میں زیادہ تر علامتی اور تجریدی افسانے ہیں اور آخر میں کچھ بیانیہ یا نیم بیانیہ افسانے بھی ہیں۔ جہاں تک افسانچوں کا تعلق ہے یا اختراعات ہیں وہ ایسے تخلیقی فنکاری ہے کہ تجریدی مصوری کی طرح اگر الٹا کر کے دیکھیں تو تخلیق کار کو سمجھ آئیں کہ یہ تو اپنے خون جگر کی دین ہے کیونکہ اپنی انڈورسمنٹ پاؤں کے بجائے سر پر کندہ کی ہوئی نظر آتی ہے ورنہ سیدھا سیدھا تو یہ ہیئت اور ماہیت کے لحاظ سے دو جمع دو چار کے مصداق یا نثر جمع نظم یا نظم جمع نثر کے مصداق نثری نظمیں یا نظمیں نثری کی قاری پر اپنی پہچان کراتی ہیں۔ جہاں تک تخلیقیت کی بات ہے وہ ہر فن پارے میں ببانگ دہل یا پورے الاپ کے ساتھ نغمہ سرا ہے۔ کیونکہ اختراع تخلیقی صلاحیتوں سے پیدا ہوتی ہے جبکہ تخلیقی صلاحیت اختراع کے بغیر بے نتیجہ ہوگی۔ تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی عالمگیر تفہیم نہیں ہو سکتی یہ تصور فنکارانہ اظہار سے لے کر معاشی، سماجی اور پائیدار ترقی کے تناظر میں مسائل کے لئے اہم ہے۔ ٹوٹم افسانے کے تھیم کو جہاں تک میں سمجھا ہوں ٹوٹم وہ ہیولا ہے وہ تخلیقی نقطہ یا رو ہے جو جسم میں وارد ہونے کے ساتھ ساتھ لمس ملاپ اور اپنائیت کے ساتھ ساتھ اون بھی کرنا پڑتا ہے یہ افسانہ اپنے تمام تر کینوس میں پہلی وصیت سوائے بیٹے کے اگر میں اس کے خود کفیل ہونے تک زندہ رہی۔ ارادہ اور ارادے کے بعد امید کی التجا کو قبول کرنا اور اب اس خیال کی انگلی تھامنا، نفسیات، جنسیات اور تخلیقات کا مرقع ہے۔ ہمزاد افسانے میں تجربات کا فنی پیرائے میں فلسفیانہ تخلیقیت کے داغ بیل ڈالنے کا نفسیاتی کاملیت کی طرف وہ اشارہ ہے جو الٹی کی صورت میں جسم سے خروج کا گردان کر کے اپنے آپ میں جذب اور پروان چڑھنے کا انسانی اور آدمی وتیرے کے تسلسل کو تکمیل تک پہنچاتا ہے جو نس نس، رگ رگ اور سراپا لہو میں بلکہ تمام تر محسوسات میں خود کو ساتھ اور پاس رکھتا ہے۔ محتاط غرور گو کہ مختصر افسانہ ہے جیسے کہ اس کے نام سے ظاہر ہے موضوع کے لحاظ رومانوی افسانہ ہے جو مکالمے اور خود کلامی پر مبنی ہے۔ اس افسانے کا جو داخلی اظہاریہ ہے جس میں دو چاہنے والے چاہت کے باوجود ایک دوسرے سے کسی ذاتی تصنع یا درون بلند قامتی کے احساسات کی وجہ سے ایک دوسرے کے لئے جھکنے کے لئے تیار نہیں اور خلوص کی چاہت و ہم آہنگی کو بناوٹ کے دکھاوے میں پراگندہ کر دیتے ہیں۔ خواب افسانے میں ایک نفسیاتی کشمکش کو سامنے لانے کی جستجو ہوئی ہے۔ کچھ جمع شدہ یادیں یا ناسٹیلجیاتی مواد لا شعور کے راستے خواب کے ذریعے خارج میں وارد ہوتے ہیں جس نے ایک تخلیق کی صورت اپنا کر افسانے کی صنف میں خود کو مکالماتی انداز میں اجاگر کیا ہے۔ چونکہ ماریہ مہ وش فلسفے کی خواندہ ہیں تو ان کے ہر موضوع یا افسانے میں فلسفہ ضرور ملتا ہے اور وہ بھی نفسیاتی فلسفہ۔ گرداب افسانے میں جو خود ٹائم لوپ کا ایک علامتی نام ہے۔ اس میں ایک خاندان کا پیش منظری اور پس منظری احوال زیست کو موضوع بحث بنایا ہے جو وقت کے گرداب میں تھے، ہیں اور رہیں گے جس کی وجہ سے ناسٹیلجیاتی اختتامیہ اس افسانے کا اگر ایک جانب کمال عروج ہے تو دوسری طرف زوال غروب بھی ہے۔ ٹائم فریم افسانے میں سائنسی لبادے کو نفسیاتی۔ جذباتی۔ ناسٹیلجیاتی اور فلسفے کے ملاپ سے رومانس میں جھوڑا اور تھوڑا گیا ہے۔ افسانہ گو کہ بہت مختصر ہے لیکن بہت پر اثر ہے جس میں دس سال پرانی یادیں ایک ہی نقطے کے گرد سوچ کی گراریوں میں الجھ گئی ہیں جو منظر بدلنے پر ایک سوالیہ جملے سے سلجھ جاتی ہے۔ کہ تم نے کل مجھے پھر شدت سے یاد کیا ہے۔ ؟ تم اس دنیا کی نہیں ہو۔ شش۔ گونگی رعایا افسانہ بھی ایک مختصر افسانہ ہے۔ اس افسانے میں سوچ و فکر پر قدغن کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ جس کا احاطہ میں پشتو زبان کے ایک مشہور و معروف شاعر سیف الرحمان سلیم کے ایک شعر سے کر سکتا ہوں۔ د وڑو وڑو خدایانو دے بندہ کڑم لویی خدایہ زہ بہ چا چا تہ سجدہ کڑم مجھے تم نے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بندہ بنا دیا اے میرے بڑے خدا! میں کس کس کو سجدہ کروں گا۔ گرد۔ تخیل۔ قرار یہ ایک تجریدی افسانہ ہے جو ڈسٹرکٹ کرنے پر جنسی موضوع کے غلاف میں سے داخلی پاکیزگی اور روحانیت کی مہک باہر نکالتی ہے۔ جس میں تلاش ہے سکون کی۔ وہ سکون کہ جس کی صورت سے تو کوئی اشنا نہیں لیکن جس کو پانے کے لئے یا پہنچنے کے لئے تیز تیز قدم یا سانسوں کو بحال کرنے کی خاطر ترتیب لازم ہوتی ہے اور ترتیب کے بنا دل کی دھڑکن قابو میں نہیں آ سکتی جس کے لئے مراقبہ اور ہمہ تن گوش ہونا ضروری ہے۔ جس کے بعد جو خود کلامی کس زور ہے وہ اس طرح پر شور ہوتا ہے۔ دل اداس ہے۔ کچھ کہنے اور سننے کو من نہیں اور یہ کیفیت کب طاری ہوتی ہے جب گرد جم جاتی ہے من موتی پہ۔ مراقبہ کے بعد ۔ تم یقین کرو مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے ہوا میں ہوں بنا وزن ہلکا۔ کوئی غبار بھی نہیں من پہ۔ وقت کی قید افسانے کو ٹائم لوپ کا تسلسل بھی کہہ سکتے ہیں لیکن وہاں افراد کی انحصاری اور ادھر فرد واحد کی کہانی ہے۔ اس کے علاوہ مزید کچھ دن کی مسز شمیم، عورت، تالاب، گیس لائٹ۔ خاموش گفتگو، موت کی تھکن، دروبست اور تری سانکو سماجی اور خانگی معاملات اور روز مرہ کشاکش کے موضوعات کے افسانے ہیں جو تخلیقی اور فنی انداز اور دروبست سے اپنے آپ میں تکمیل پاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مہ وش خان بنگش کے افسانوں کا ایک اور مجموعہ مہوشاں بھی چپ کر منظر عام پر آ چکا ہے لیکن بندہ پرور اب تک اس کے پڑھنے سے مستفیض نہیں ہوا ہے تو اس پر اور بات تو نہیں کر سکتا ہوں لیکن اس مجموعے کے افسانوں کو دیکھ کر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس مجموعے میں بھی اسی طرح تخلیقی اور فنکارانہ استاکاری کی جھلک دکھائی ہوئی نظر آتی ہوگی جو اس افسانوی مجموعے میں نہ صرف نظر آئی بلکہ وجود بھی رکھتی ہے
کوئی تبصرے نہیں