Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

شکیب جلالی کی نظم مجرم

  شکیب جلالی کی نظم مجرم یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے جس کے فٹ پاتھ فقیروں سے اٹے رہتے ہیں خستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے ...

 


شکیب جلالی کی نظم

مجرم

یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے
جس کے فٹ پاتھ فقیروں سے اٹے رہتے ہیں
خستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے
یہ بھکاری کہ جنہیں دیکھ کے گھن آتی ہے

ہڈیاں جسم کی نکلی ہوئی پچکے ہوئے گال
میلے سر میں جوئیں، اعضا سے ٹپکتا ہوا کوڑھ
روح بیمار، بدن سست، نگاہیں پامال
ہاتھ پھیلائے پڑے رہتے ہیں روگی انسان

چند بیواؤں کے مدقوق سے پیلے چہرے
کچھ ہوس کار نگاہوں میں اتر جاتے ہیں
جن کے افلاس زدہ جسم، ڈھلکتے سینے
چند سکوں کے عوض شب کو بکا کرتے ہیں

شدت فاقہ سے روتے ہوئے ننھے بچے
ایک روٹی کے نوالے سے بہل جاتے ہیں
یا سر شام ہی سو جاتے ہیں بھوکے پیاسے
ماں کی سوکھی ہوئی چھاتی کو دبا کر منہ میں

چند بد زیب سے شہرت زدہ انساں اکثر
اپنی دولت و سخاوت کی نمائش کے لیے
یا کبھی رحم کے جذبے سے حرارت پا کر
چار چھ پیسے انہیں بخش دیا کرتے ہیں

کیا فقط رحم کی حق دار ہیں ننگی روحیں؟
کیوں یہ انسانوں پہ انسان ترس کھاتے ہیں؟
کیوں انہیں دیکھ کے احساس تہی دستی ہے
اکثر اوقات میں کترا کے نکل جاتا ہوں؟
یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے

کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ