دھوپ اور چھاؤں کے رنگوں میں نہاتی اک گلی
میں نے دیکھی خواب میں شب، مسکراتی اک گلی
ذہن میں بستا ہوا اک خوش جمالوں کا نگر
اور وہاں پر جنتوں کی سمت جاتی اک گلی
جسم سوتا ہے تو جاگ اٹھتی ہے میرے ذہن میں
خلیہ در خلیہ تھکن میری، مٹاتی اک گلی
برگِ آوارہ کی صورت میں جہاں بھر میں پھرا
یاد آئی ہی نہیں، مجھ کو بلاتی اک گلی
چپ کی چادر اوڑھ کر تکتی ہے میرا راستہ
میرے دل کو خون کے آنسو رلاتی اک گلی
ہوگی اب کس حال میں، دیکھا نہیں اک عمر سے
میرے بچپن کے حسیں قصے سناتی اک گلی
جانے میں کس زعم میں چھوڑ آیا عارف وہ نگر
اور وہ قدموں سے لپٹتی، ناز اٹھاتی اک گلی
عارف نسیم فیضی
کوئی تبصرے نہیں