Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

تازہ ترین:

latest

استاد قمر جلالوی


 

ذرا سے ابر میں گم آفتاب کیا ہوتا

اگر خدائی بتوں کی ہوتی تو دیر ہوتا حرم نہ ہوتا

تری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتا

تو پھر انصاف ہو گا اے بتِ خود سر کہاں میرا

میں خود ہی فلک کا ستایا ہوا ہوں مجھے تم ستانے کی کوشش نہ کرنا

کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا

زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا

آؤ مل لو عید یہ موقع نہیں تکرار کا

گل کون تراشے ہے چراغِ سحری کا

کیا کروں حشر میں ڈر ہے تری رسوائی کا

پتہ پتہ ہاتھ ملتا رہ گیا گلزار کا

خدا معلوم و کس کس سے محوِ گفتگو ہو گا

یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا

جو بیڑا ڈوب چکا ہو وہ پار کیا ہو گا

خجل ہوئے پہ یہ توڑی قسم تو کیا ہو گا

اندھیرے میں نظر نہ آیا میخانہ تو کیا ہو گا

کوئی طوفاں ہو گا ناخدا ساحل تو کیا ہو گا

وہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہو گا

خیالاتِ بشر میں انقلاب آنے سے کیا ہو گا

یہ خبر ہی نہ تھی طور جل جائے گا

قمر خدا کی قسم وہ بھی کیا زمانہ تھا

لیکن میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا

آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا

جامِ حیات ایک ہی قطرے میں بھر گیا

سوچتا ہوں کون کون آیا گیا

تھا کماں تک تیر دل میں آ کے ارماں ہو گیا

وہ نہانے کیا چلے آئے تماشا ہو گیا

اے بتِ خاموش کیا سچ مچ کا پتھر ہو گیا

اک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیا

شمع روشن ہو گئی پھولوں کا ہار آ ہی گیا





کوئی تبصرے نہیں

ہم سے رابطہ