ذرا سے ابر میں گم آفتاب کیا ہوتااگر خدائی بتوں کی ہوتی تو دیر ہوتا حرم نہ ہوتاتری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتاتو پھر انصاف ہو گا اے بتِ خود سر کہاں میرامیں خود ہی فلک کا ستایا ہوا ہوں مجھے تم ستانے کی کوشش نہ کرناکہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنازباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دیناآؤ مل لو عید یہ موقع نہیں تکرار کاگل کون تراشے ہے چراغِ سحری کاکیا کروں حشر میں ڈر ہے تری رسوائی کاپتہ پتہ ہاتھ ملتا رہ گیا گلزار کاخدا معلوم و کس کس سے محوِ گفتگو ہو گایہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گاجو بیڑا ڈوب چکا ہو وہ پار کیا ہو گاخجل ہوئے پہ یہ توڑی قسم تو کیا ہو گااندھیرے میں نظر نہ آیا میخانہ تو کیا ہو گاکوئی طوفاں ہو گا ناخدا ساحل تو کیا ہو گاوہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہو گاخیالاتِ بشر میں انقلاب آنے سے کیا ہو گایہ خبر ہی نہ تھی طور جل جائے گاقمر خدا کی قسم وہ بھی کیا زمانہ تھالیکن میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہاآج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیاجامِ حیات ایک ہی قطرے میں بھر گیاسوچتا ہوں کون کون آیا گیاتھا کماں تک تیر دل میں آ کے ارماں ہو گیاوہ نہانے کیا چلے آئے تماشا ہو گیااے بتِ خاموش کیا سچ مچ کا پتھر ہو گیااک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیاشمع روشن ہو گئی پھولوں کا ہار آ ہی گیا استاد قمر جلالوی 1. غزل 2. غزل 3. غزل 4. غزل 5. غزل 6. غزل 7. غزل 8. غزل 9. غزل 10. غزل 11. غزل
کوئی تبصرے نہیں