رنگیلا: ایک نابغۂ روزگار فنکار کی داستان 9 مارچ 1973، پاکستانی فلمی صنعت کے افق پر ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ فلمساز، ہدایتکار، اداکار، موسی...
رنگیلا: ایک نابغۂ روزگار فنکار کی داستان
9 مارچ 1973، پاکستانی فلمی صنعت کے افق پر ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ فلمساز، ہدایتکار، اداکار، موسیقار، اور گلوکار—یہ تمام کردار ایک ہی نام میں سمٹ گئے: رنگیلا۔ ان کی پنجابی فلم دو رنگیلے کراچی کے گوڈین اور حیدرآباد کے کوہِ نور سینما میں نمائش پذیر ہوئی اور باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یہ صرف ایک فلم نہیں تھی، بلکہ اس شخص کی انتھک محنت، بے پناہ صلاحیت، اور ایک الگ پہچان بنانے کی جدوجہد کی داستان تھی، جو افغانستان کے ایک عام سے گھر میں پیدا ہوا اور پشاور آ کر قسمت آزمانے لگا۔
ابتدائی زندگی: ایک خواب کی تلاش
رنگیلا کا اصل نام محمد سعید خان تھا۔ وہ ایک عام شکل و صورت کا آدمی تھا، لیکن اس کے اندر ایسا ذہن بسا تھا جو فلمی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والا تھا۔ پشاور آنے کے بعد فلموں کا ایسا دیوانہ ہوا کہ سنیما کے بورڈ بنانے لگا۔ لیکن قسمت کے فیصلے کچھ اور تھے۔ انور کمال پاشا نے 1958 کی فلم چن ماہی میں پہلی بار اس کی جھلک دکھائی، مگر اصل موقع گلبدن میں ملا، جہاں اس کے مکالمے، حرکات اور باڈی لینگویج نے سب کو حیران کر دیا۔
رنگیلا نے مزاحیہ اداکاری میں اپنی شناخت بنا لی، مگر وہ ایک ایسا شخص تھا جو صرف کامیڈی کا سہارا نہیں لینا چاہتا تھا۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا، کچھ ایسا جو پاکستان کی فلمی صنعت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے۔
عروج کی داستان: دیا اور طوفان سے دو رنگیلے تک
1968 میں، جب لوگ رنگیلا کو ایک مضحکہ خیز شکل والا اداکار سمجھتے تھے، اس نے سب کو غلط ثابت کر دیا۔ دیا اور طوفان نامی فلم میں وہ فلمساز، ہدایتکار، مصنف، نغمہ نگار، گلوکار اور اداکار سب کچھ تھا۔ یہ فلم نہ صرف سپر ہٹ ہوئی بلکہ ایک نئی روایت قائم کر گئی کہ کوئی عام شکل و صورت والا شخص بھی سپر اسٹار بن سکتا ہے—اگر اس کے پاس قابلیت ہو۔
رنگیلا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس کی فلموں میں کردار حقیقت کے قریب ہوتے تھے۔ اس کا مکالمہ "میرا بیٹا سب سے خوبصورت ہے، کیونکہ ماں کے لیے کوکھ کا کوئلہ بھی خوبصورت ہوتا ہے" نہ صرف ایک فلمی مکالمہ تھا بلکہ ایک جذباتی حقیقت تھی، جو لوگوں کے دلوں میں بس گئی۔
1973 میں، دو رنگیلے کے ساتھ رنگیلا نے پھر وہی کر دکھایا۔ اس بار وہ صرف کامیڈی تک محدود نہیں تھا بلکہ ایک ڈبل رول میں ایک عام دیہاتی اور ایک سپر اسٹار کی کہانی لے کر آیا۔ شیرو، جو ایک معصوم گلوکار تھا، اور رنگیلا، جو فلمی دنیا کا مغرور بادشاہ تھا۔ فلم کی کہانی نے لوگوں کے دل جیت لیے، اور گانے—"سن میرے ککو او، سن میرے پپو، تساں میری قدر پہچانی اے"—ہر زبان پر تھے۔
فلمی دنیا کی حقیقتیں اور رنگیلا کا جرأت مندانہ انداز
دو رنگیلے دراصل پاکستانی فلمی صنعت کی ایک تلخ حقیقت کی عکاسی تھی۔ رنگیلا نے فلمی دنیا کے عروج و زوال، اداکاروں کی غرور پرستی، اور سسٹم کی خامیوں کو بے نقاب کیا۔ یہ فلم ایک آئینہ تھی، جس میں ہر وہ شخص دیکھ سکتا تھا جو فلمی دنیا کے پردے کے پیچھے چھپے سچ کو جاننا چاہتا تھا۔
رنگیلا نے اپنی فلم میں 20 کے قریب مہمان اداکاروں کو جگہ دی، جو اس وقت کسی بھی فلم میں ایک نیا تجربہ تھا۔ فلم کے نغمات، مکالمے، کہانی، اور کردار ہر لحاظ سے شاندار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فلم نے پنجاب میں 77 ہفتے چل کر پلاٹینم جوبلی اور سندھ میں 27 ہفتے چل کر سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔
رنگیلا: ایک ناقابل فراموش فنکار
رنگیلا صرف ایک اداکار نہیں تھا، وہ ایک تحریک تھا۔ اس نے رنگیلا، دو رنگیلے، رنگیلا اور منور ظریف، ساجن رنگ رنگیلا، رنگیلے جاسوس، رنگیلا عاشق جیسی بے شمار فلمیں دیں۔ وہ دنیا کا واحد اداکار تھا جس کے نام پر سب سے زیادہ فلمیں بنائی گئیں۔
اس نے کئی شعبوں میں اپنی صلاحیتیں دکھائیں، چاہے وہ موسیقی ہو، ہدایتکاری ہو، یا گلوکاری۔ دو رنگیلے میں اس نے اپنے نام کو موسیقار کے طور پر شامل کرایا، حالانکہ اصل دھنیں کمال احمد نے ترتیب دی تھیں۔
آخری سفر: ایک عظیم انسان کی یادیں
رنگیلا کی کہانی ایک ایسے انسان کی ہے جس نے اپنی ہنسی اور مزاح میں غموں کو چھپایا۔ جو فلمی دنیا میں آ کر خود کو منوانے کے لیے دن رات محنت کرتا رہا۔ اس کی کامیابیاں، اس کی ناکامیاں، اس کی جدوجہد، سب کچھ ایک سبق ہے کہ اگر جذبہ اور لگن ہو تو کچھ بھی ممکن ہے۔
آج بھی جب کوئی پاکستانی فلمی صنعت کی بات کرتا ہے تو رنگیلا کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھا، جو کبھی مٹی میں دبا نہیں سکتی۔ اس کی فلمیں، اس کے مکالمے، اور اس کا انداز ہمیشہ زندہ رہے گا، کیونکہ وہ رنگیلا تھا—پاکستانی سینما کا سب سے منفرد، سب سے نایاب، اور سب سے عظیم فنکار۔
منقول۔۔
کوئی تبصرے نہیں
ایک تبصرہ شائع کریں