"ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا". جاوید اختر، الفاظ کے ساحر برصغیر میں ایسے زبردست شاعر اور ادیب پیدا ہوئے جنہوں نے ہمارے اردو ا...
"ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا".
جاوید اختر، الفاظ کے ساحر
برصغیر میں ایسے زبردست شاعر اور ادیب پیدا ہوئے جنہوں نے ہمارے اردو ادب بشمول فلمی ادب کو آگے بڑھایا ۔ان میں جاوید اختر بھی ہیں جنہیں جادو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جادو کا جادو ہے جو وہ آج بھی اتنے ہی مشہور ہیں جتنے ابتدا میں تھے۔اب ذرا فلمی دنیامیں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے.. لیکن فلم ان کے ہمیشہ قریب رہی۔
فلم کے آدمی ہیں مگر ادب خون میں شامل ہے۔فضل حق خیر آبادی صاحب کے پڑ پوتے، مضطرخیر آبادی کے پوتے، جان نثار اختر اور صفیہ کے بیٹے، مجاز کے بھانجے، کیفی اعظمی کے داماد اور شبانہ اعظمی کے شوہر ہیں۔دیوار اور شعلے جیسی سپر ہٹ فلموں کے مکالمے سلیم اور جاوید نے لکھے اور بقول امیتابھ بچن دیوار جیسا اسکرپٹ ہندوستانی سینما کی تاریخ میں کبھی نہیں لکھا گیا۔ امیتابھ بچن، آج کے سپرسٹار کبھی مسلسل فلاپ موویز دے کر کیریئر کے ابتدا ہی میں بوریا بستر لپیٹ کر نکلنے کی کی تیاری رہے تھے کہ سلیم جاوید کی جوڑی نے اینگری ینگ مین کا کردار دے کر انڈسٹری کو ایک باغی قسم کا ہیرو دے دیا جس کے اندر ایک آگ ہے.. جو دنیا کی ناانصافی کے خلاف بولنا چاہتا ہے اور کچھ کر دکھانا چاہتا ہے۔ اور پھر اسی طرح کے کرداروں نے بالی وڈ اور امیتابھ کو امیتابھ بنایا۔ جاوید اختر واقعی لفظوں کےجادوگر ہیں۔ان کو بولنا بھی بہت خوب آتا ہے۔
جاوید صاحب یعنی جادو کا اثر دیکھیے کہ وہ آج بھی ہر بڑی ادبی محفل میں بلائے جاتے ہیں.. پچھلے دنوں بھی ریختہ کے پروگرام میں شرکت کی مڈل ایسٹ کے پروگرام میں موجود تھے۔ لوگ جادو کی باتوں کے دلدادہ ہیں اور کا انکاجادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
جاوید صاحب کے گیتوں میں سادہ زبان کا استعمال ہوتا ہے ان کے گانے منفرد بھی ہیں، دلکش بھی اور رومانوی بھی۔ فلم کی کہانی کے مطابق گانوں میں ورائیٹی یا تنوع بھی ہے۔ فلم سلسلہ سے انھوں نے یش چوپڑہ کے کہنے پر گانے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا "دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے" سے جادو نے بالی وڈ میں گیت لکھنے کا آغاز کیا۔ بہت لکھے.. پسند بھی کیے گئے اور معیار بھی قائم رکھا.. ان کا ایک گانا بڑا ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے "ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا" اس گانے نے اس وقت دھوم مچا رکھی تھی.. سادہ سے الفاظ میں لکھا ہوا یہ گانا منیشا کوئیرالہ پر پکچرائز ہوا تھا اور منیشا کی خوب صورتی نے اس گانے کی کشش میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ جاوید صاحب نے یہ گانا مادھوری ڈکشٹ کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھا تھا کیوں کہ اس وقت یہ فلم مادھوری کر رہی تھیں مگر بعد میں فلم منیشا کے حصے میں آئ۔
اس گانے کے بول ہی اس قدر دلنشیں ہیں کہ سننے والا اس کے سحر میں کھو سا جاتا ہے۔اس گانے سےمتعلق ایک اور قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔اس گانے کا میوزک آر ڈی برمن نے دیا تھا جب اس گانے کی ریکارڈنگ شروع ہوئ اور گلوکار کمار سانو اسٹوڈیو پہنچے تو ان کا شیو بڑھا ہوا تھا.. پنچم دا نے کہا کہ تم واپس جاؤ کیوں کہ تمہاری شیو بڑھی ہوئ ہے جبکہ یہ گانا بہت رومانٹک ہے۔ اس کے لیے ایک خاص موڈ کی ضرورت ہے۔کمار سانو گھر سے کلین شیو کرکے آئے اور اس کے بعد گانا گایا۔ملاحظہ کہ اس دور کے لوگ کام کے معاملے میں کس قدر حساس ہوتے تھے..
جاوید صاحب نے اس قدر کام کیا ہے اور کر رہے ہیں کہ کئ لوگ مل کر بھی اتنا کام نہیں کر سکتے۔ جاوید صاحب کی بیگم شبانہ اعظمی سے جب کوئ پوچھتا ہے کہ جاوید صاحب تو بہت رومینٹک ہوں گے تو شبانہ اعظمی کہتیی ہیں کہ جاوید بالکل رومینٹک نہیں ہیں بلکہ ان کو تو رومانس آتا ہی نہیں ہے ۔اس پر جاوید صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے کبھی سرکس دیکھا ہے وہاں لوگ کس طرح کام کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی گھر میں بھی کرتب دکھانے لگے۔ جاوید صاحب کے بارے میں ایک پروگرام میں شبانہ جی نے بتایاکہ ایک مرتبہ جاوید صاحب بڑے رومینٹک موڈ میں تھے، انہوں نےکار روکی اور اتر کر پھول والے کی دکان سے بے تحاشہ پھول خرید کر کار کو بھر دیا اور یہ سارے پھول شبانہ جی کو تحفے میں دے دیے.. اب اس سے زیادہ اور آدمی کیا رومینٹک ہوسکتا ہے مگر یہاں عمر شریف صاحب کا ایک جملہ ذہن میں آتا ہے کہ وہ کہتے تھے ایک خاتون کہتی ہیں بہن میرے بارہ بچے ہیں مگر کیا کروں کبھی سچا پیار نہیں ملا ۔
جاوید صاحب کے غیر فلمی گیت بھی بہت مقبول ہوئے
جیسے جگجیت صاحب کی آواز میں
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایا
آج پھر دل نے اک تمنا کی
آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا
اسی طرح
یہ تیرا گھر یہ میرا گھر
کسی کو دیکھنا ہو گر
تو پہلے آکے مانگ لے
تیری نظر میری نظر
جاوید صاحب اور شبانہ اعظمی دونوں ہی ادبی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جاوید صاحب نے شبانہ جی پر نظم کہی ہے وہ بھی بڑے کمال کی ہے جس کو ایک فلم میں انو ملک نے پنے سروں میں ڈھالا ہے ۔
کتھئ آنکھوں والی اک لڑکی
ایک ہی بات پر جھگڑتی ہے
تم مجھے کیوں نہیں ملے پہلے
روز یہ کہ کے مجھ سے لڑتی ہے
پچھلے دنوں جاوید صاحب کی 80ویں سالگرہ منائ گئ ہماری دعا ہے کہ جادو کا جادو چلتا رہے اور ہم ان کے گانوں سے مسرور ہوتے رہیں۔آخر میں وہ گیت جس سے تحریر کا آغاز ہوا
ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا
جیسے کھِلتا گلاب
جیسے شاعر کا خواب
جیسے اَجلی کِرن
جیسے بَن میں ہِرن
جیسے چاندنی رات
جیسے نرمی کی بات
جیسے مندر میں ہو کوئ جلتا دیا
ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا
جیسے صبح کا روپ
جیسے سردی کی دھوپ
جیسے بیِناکی تان
جیسے رنگوں کی جان
جیسے بل کھائے ریل
جیسے لہروں کا کھیل
جیسے آہستہ آہستہ بڑھتا نشہ
اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا
کوئی تبصرے نہیں
ایک تبصرہ شائع کریں